مرکز

در حال بارگیری...

آیت اللہ بہجت

اگر ہم خود ٹھیک ہو جائیں

یہ آقا بہجت ہیں
 1959ء میں،میں حضرت آیت اللہ بہجت سے آشنا ہوا یہ پہلا سال تھا کہ میں آیت اللہ بر وجردی  کے درس میں جانے لگا تو وہیں ان سے آشنائی ہوئی میں نے شاگردان درس سے ایک گیلانی ملا کے بارے میں گفتگو سنی کہ سب اس کی تعریف کر تے تھے میں نے سوچا کہ وہ میرے ہم وطن ہیں مگر میں انھیں نہیں پہچانتا جب ان سے تعارف ہوا...

یہ آپ ہی کی بات ہے

حجت الاسلام والمسلمین روحی کا بیان  حوزہ علمیہ میں آٹھ نو سال بسر کرنے  اور سطحیات سے فارغ ہونے کے بعد جب میں نے درس خارج میں شمولیت کا ارادہ کیا تو چھان بین  کے لئے میں بعض آقایان  کے دروس خارج میں حاضر ہوتا رہا درس کے بعد جب میں جواہر الکلام کا مطالعہ کرتا تو میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا بہت بے چین ...

مجھے فکر و سوچ سکھائی

مجھے یاد ہے کہ میں درس کے موضوع کے سلسلے میں عمیق مطالعہ کر کے اور مختلف علماء کے دلائل و نظریات یاد کرکے آیت اللہ بہجت کے درس خارج میں گیا میرا خیال تھا کہ ان کا درس بھی درسہاء خارج کے عمومی رواج کے مطابق ہوگا کہ جس میں ایک ایک عنوان پر مجتہد مختلف فقہاء کے نظریات و دلائل کو باری باری بیان کرتے تھے...

شہرت پسند نہیں تھے

ایک بار درس خارج  کے دوران فرمایا کہ کچھ لوگ کمزور سی آواز کے مالک ہیں مگر سینکڑوں لاؤڈ سپیکر ان کی آواز کو پھیلانے میں مشغول ہیں اور کچھ لوگ آواز اور لہجے کے لحاظ سے مضبوط ہیں مگر اصلا لاؤڈ سپیکر نہ ہونے کے سبب ان کی آواز زیادہ دور تک نہیں پہنچتی ان کی مراد غالبا یہ تھی کہ کچھ لوگ علمی کم مائیگی کا...

شاگردوں کی کثرت نہیں چاہتے تھے

آیت اللہ بہجت کی ایک سوچ یہ بھی تھی کہ ان کے درس  اور حلقہ اثر میں مخصوص اور با صلاحیت لوگ ہی شامل ہوں وہ ایسی کثرت کو ناپسند کرتے تھے جو ان کے پاس تو آئے مگر فکر و سوچ سے عاری ہو اس روش کے ساتھ وہ آہستہ آہستہ اپنے پاس بیٹھنے والوں اور اپنے شاگردوں کے دلوں میں ایک خاص علمی استعداد اور صلاحیت کار پید...

ہر علم پر کامل گرفت تھی

حضرت آیت اللہ بہجت کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ انھوں نے ہرعلم کو کامل اور راسخ انداز میں حاصل کیا تھا علمِ لغت ہو یا علم ادبیات  اور اسی طرح باقی تمام علوم میں یدطولیٰ اور دست ِ کمال رکھتے تھے اور اسی کمال علمی کے سبب ان کی شخصیت بڑی جاذب تھی یہی وجہ ہے کہ ہم ان کی خدمت میں جب حاضر ہوتے تو کبھی انھیں ...

وہ نہیں کہتے تھے یہ میرا فتویٰ ہے

بعض اوقات حضرت آیت اللہ بہجت سوال کا فورا جواب نہیں دیتے تھے اور خاموشی اختیار کر لیتے تھے اس کا سبب ایک تو یہ تھا کہ وہ عرفانی سیر میں اس وقت مشغول ہوتے تھے اور دوسرا سبب یہ کہ وہ فتویٰ دینے میں بڑے محتاط تھے ایک بار ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک شخص کچھ مسائل فقہی لے کر ایک عالم دین کے پاس آیا اور جوا...

نماز نے ان کے ساتھ کیا کر دیا

حضرت آیت اللہ بہجت کا طریقہ تھا کہ جب وہ درس شروع کرتے تو کبھی اپنے موضوع سے باہر نہیں جاتے تھے ساری گفتگو متعین موضوع سے وابستہ رہتی تھی صرف ایک بار  ایسا اتفاق ہوا مجھے یاد ہے کہ درس اصول کے دوران جب بحث اجزا میں مصروف ہوئے تو حدیث الصلواة معراج المومن اور الصلواة تنہی عن الفحشاء و المنکر کو پیش ک...

یہ آپ کی بات ہے

حضرت آیت اللہ بہجت کی گفتگو ایک خاص انداز میں ہوتی تھی وہ اپنی گفتگو میں ہر مطلب عمومی انداز میں بیان کرتے تھے اگر کسی بات کا کسی خاص شخص سے تعلق بھی ہوتا تھا تو واضح نہیں ہونے دیتے تھے  اور یہی طریقہ کار ان کے اساتذہ آقا قاضی و آقا پہلوانی کا تھا کہ وہ کبھی کسی کو مشخص کر کے کوئی بات نہیں کہتے تھے ...

با الواسطہ گفتگو کرتے تھے

حضرت آیت اللہ بہجت کی عادت تھی کہ وہ کسی سانحہ کے بارے میں بلاواسطہ گفتگو نہیں کرتے تھے بلکہ باالواسطہ گفتگو سے کام لیتے تھے مثلا اگر آج ایک قضیہ پیش آ گیا ہے تو اسے گفتگو کا موضوع بنانے کی بجائے صدیوں پہلے اس جیسا کوئی واقعہ بیان کر کے اس  پر تبصرہ کر دیتے تھے اور اس طرح موجودہ واقعہ پر بھی روشنی ح...

تازہ ترین مضامین

پروفائلز