ایک بار آقا پہلوانی کے پاس ایک طالب علم سید زادہ تہران سے آیا آقا پہلوانی نے مجھے کہا کہ انھیں آقا بہجت کے پاس لے جاؤ اس نے کہا آقا بہجت کون ہیں آقا پہلوانی نے جواب دیا کہ وہ ایک پھول ہیں میں انھیں لے کر آقا بہجت کی خدمت میں حاضر ہوا تو نماز کا وقت تھا ہم دونوں نماز میں شامل ہو گئے نماز کے بعد آقا بہجت نے مجھ سے پوچھنے کی بجائے براہ راست سید زادے سے خطاب کیا اور ان کی خیر و عافیت دریافت کی مزاج پرسی سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ ایک دوسرے سے خوب واقف ہیں۔
آقا بہجت نے پوچھا کب واپس جاؤ گے انھوں نے کہا میں کل تہران چلا جاؤں گا آقا بہجت نے فرمایا کل جمعہ ہے یہیں رہیں اور میرے ہاں مجلس عزاء میں شرکت کریں اس نے کہا نہیں آقا مجھے ضرور واپس جانا ہے اور میں کل پہلے وقت تہران پہنچنا چاہتا ہوں اب آقا بہجت رہنے پر اصرارکر رہے تھے اور وہ واپس جانے کا جواب دے رہے تھے۔
لوگ حیران تھے کہ آقا بہجت جن کی ایک لمحہ کی توجہ کے لئے سب ترستے ہیں ان سید زادے کو کس طرح بار بار متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں معلوم ہوتا تھا کہ ایک دوسرے سے خوب واقف ہیں۔