حضرت آیت اللہ بہجت کا طریقہ تھا کہ جب وہ درس شروع کرتے تو کبھی اپنے موضوع سے باہر نہیں جاتے تھے ساری گفتگو متعین موضوع سے وابستہ رہتی تھی صرف ایک بار ایسا اتفاق ہوا مجھے یاد ہے کہ درس اصول کے دوران جب بحث اجزا میں مصروف ہوئے تو حدیث الصلواة معراج المومن اور الصلواة تنہی عن الفحشاء و المنکر کو پیش کر تے ہوئے ان کے مطالب کو بار بار دہرایا اور کثرت کے ساتھ دہراتے رہے جس سے سوچنا پڑتا تھا کہ نماز کے ساتھ انھیں کس قدر محویت ہے کہ اصل مو ضوع درس سے ہٹ کر وہ نماز اور اس کے متعلقات کی طرف آگئے اور ان کی تفسیر میں چلے گئے حضرت آیۃ اللہ بہجت کا عمومی طریقہ یہ تھا کہ جب گھر میں درس دیتے تھے تو فقہی و عرفانی مسائل درس سے پہلے یا درس کے بعد بیان کرتے تھے دوران درس وہ متعین موضوع کے مطابق ہی بحث فرماتے تھے اور اس کے ادہر ادہر کبھی نہیں جاتے تھے۔
البتہ جب ان کے دروس بڑی مسجد میں منتقل ہوئے اور انھوں نے محسوس کیا کہ حاضرین کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ کچھ با صلاحیت لوگ ہی درس میں آنے لگے ہیں تو پھر درس کے دوران متعین موضوع کے ساتھ ساتھ عرفانی اخلاقی مسائل بھی بیان کر دیتے تھے اور سب سے اہم بات یہ کہ انھوں نے اپنے اخلاقی عرفانی،اعتقادی مطالب جو ان سب سے زیادہ قیمتی اور وقیع تر ہیں جو انھوں نے اپنے اشعار میں پیش کئے ہیں اور اس وقت تک ہم انھیں لوگوں تک نہیں پہنچا سکے۔