حضرت آیت اللہ بہجت کی عادت تھی کہ وہ کسی سانحہ کے بارے میں بلاواسطہ گفتگو نہیں کرتے تھے بلکہ باالواسطہ گفتگو سے کام لیتے تھے مثلا اگر آج ایک قضیہ پیش آ گیا ہے تو اسے گفتگو کا موضوع بنانے کی بجائے صدیوں پہلے اس جیسا کوئی واقعہ بیان کر کے اس پر تبصرہ کر دیتے تھے اور اس طرح موجودہ واقعہ پر بھی روشنی حاصل ہوجاتی تھی اور اس طرح اگرکبھی حکومت کے کچھ اہلکار خدمت میں حاضر ہوتے اور رہنمائی چاہتے تو ان سے براہ راست خطاب کرنے کی بجائے سالوں پہلے گزرے ہوئے اس قسم کے کسی واقعہ کا حوالہ دیتے جس میں انھیں رہنمائی مطلوب ہوتی اور پھر فرماتے کہ اس زمانے میں علماء دو حصوں میں تقسیم ہو گئے تھے کچھ یوں کہتے تھے اور کچھ یوں کہتے تھے اور میرے خیال میں دوسرے گروپ کے علماء کا بیان صحیح تھا اس طرح ان پر صورتحال واضح ہو جاتی۔