مجھے یاد ہے کہ میں درس کے موضوع کے سلسلے میں عمیق مطالعہ کر کے اور مختلف علماء کے دلائل و نظریات یاد کرکے آیت اللہ بہجت کے درس خارج میں گیا میرا خیال تھا کہ ان کا درس بھی درسہاء خارج کے عمومی رواج کے مطابق ہوگا کہ جس میں ایک ایک عنوان پر مجتہد مختلف فقہاء کے نظریات و دلائل کو باری باری بیان کرتے تھے پھر انھیں رد کرتے تھے اور آخر میں اپنا نظریہ پیش کرکے اپنی تحقیق کو دلائل سے ثابت کرتے تھے اور اسی کو نتیجہ قرار دیتے تھے میرے خیال میں یہ طریقہ تدریس مجتہد بننے کے لئے چندان مفید نہیں تھا۔
کیوں کہ اس میں طلباء کو ذہنی اور فکری تربیت دینے کی بجائے درس دینے والا اپنی تیار شدہ تحقیق اور دوسرے فقہاء کے دلائل کے رد کو تیار شدہ تحقیق کی صورت میں طلباء کے ہاتھ میں دے دیتے تھے اور اپنا نظریہ انھیں سنا دیتے تھے ان میں ذاتی فکر،تحقیق اور کد و کاوش کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا تھا میں اسی رواجی تدریس کو ذہن میں رکھ کر ١٦ گھنٹے تیاری کرکے آیت اللہ بہجت کے درس میں گیا تو وہاں حالت ہی اور تھی وہ تو درس سننے والوں کی فکر کو اجاگر کرنا اور پروان چڑھانا چاہتے تھے تا کہ ان میں ذاتی سوچ اورتحقیق کا ملکہ پیدا ہو جائے۔
وہ دوران تدریس دو چار جملے ارشاد فرماتے اور پھر کچھ خاموشی اختیار کر لیتے گویا وہ ان مطالب پر سوچنے کا موقع فراہم کرتے تھے پھر کچھ دیر کے بعد سننے والوں کی صلاحیت کے مطابق اپنے بیان کو فکری انداز میں آہستہ آہستہ آگے بڑھاتے اس طرح وہ اپنے شاگردوں میں عملی طور پر از خود سوچنے اور فکر کرنے کا ملکہ پیدا کرتے تھے۔