مرکز

در حال بارگیری...

آیت اللہ بہجت اپنے بیٹے کی زبانی

دلوں پرحکومت

وہ بچپن میں دوسرے بچوں سے ممتاز انداز رکھتے تھے بلوغ سے کئی سال پہلے ایک متقی اور مہذب عالم دین کی تربیت کے سبب وہ روحانی سلوک و صعود کے راستے پر چل پڑے تھے ان کی عمر بارہ سال تھی کہ مکتب سے فارغ ہو کر انہوں نے علوم حوزوی کی تحصیل شروع کردی تھی ابھی ١٤ سال کی عمر تک نہ پہنچے تھے کہ کربلا چلے گئے انہوں نے محنت و مسلسل کوشش کیساتھ اپنے کو حوزہ کربلا کے بزرگ اساتذہ کی صف میں شامل کر لیا حصول علم میں ان کی کوشش اس طرح رنگ لائی مرحوم آیت اللہ حجت فرمایا کرتے تھے کہ میں نے انہیں ایام میں ان کے استاد گرامی کو یہ فرماتے ہوئے سنا میں اس شاگرد کو خوش آمدید کہتا ہوں جو استاد سے بہتر ہے۔ 

١٤ سال کی عمر میں کربلا کے ایک بزرگ عالم دین کیساتھ ایک پر زور بحث نے جو ان کے کمرے کے سامنے تھی بڑی شہرت بخش دی نو جوانی کے ایام میں نجف اشرف کے حوزہ علمیہ میں دوران درس ایک مشکل علمی مسئلہ کو حل کیا تو مرحوم آقا قاضی نے فرمایا  آپ کے فاضل ہونے کی میں گواہی دیتا ہوں اور اس کے بعد وہ انہیں ہمیشہ فاضل گیلانی کہہ کر پکارتے رہے جب بھی کسی درس میں شریک ہوتے تو ان کی طرف اعتراف فضیلت میں انگلیاں اٹھتی تھیں گویا کہ وہ علوم ظاہری میں اپنے معاصر سے بہت زیادہ سبقت لے گئے اور اوج ترقی و کمال پر فائز ہو گئے۔

نو جوانی کے ایام میں نجف اشرف کے حوزہ علمیہ میں دوران درس ایک مشکل علمی مسئلہ کو حل کیا تو مرحوم آقا قاضی نے فرمایا  آپ کے فاضل ہونے کی میں گواہی دیتا ہوں

انہوں نے مرزا شیرازی سے باریک بینی ان کے شاگرد شیخ محمد کاظم کے وسیلے سے اور جدت و اختراع مرحوم آقا نائینی سے بلند فکری آقا ضیاء عراقی سے استدلال و رای میں ژرف نگاہی اور استقامت آقا غروی کمپانی سے ظرائف و دقائق عقلی بھی انہیں سے اور آقا بادکوبہ ای سے اور فقہ کے تمام مہم ابواب آقا ابوالحسن اصفہانی سے حاصل کیے اور آخر میں عارف بے بدل آقا قاضی طباطبائی سے نظر و رای کے الوہی الہام سے سرفراز ہوئے جی ہاں انہوں نے علم و عمل کے دونوں سلسلوں علوم ظاہری اور اجتہاد علوم باطنی اور سیر و مراقبہ کو اس منتہی مقام تک پہنچایا جو کسی انسان کے لیے ممکن ہو سکتا ہے یہاں تک وہ ہر لحاظ سے بالا دست ہو گئے وہ جہاں اجتہاد میں بے مثل و نظیر تھے وہ منازل سیر و سلوک کو اپنی آخری حد تک پہنچانے میں لاثانی تھے۔

ان میں خود نمائی کا ذرا برابر ادعا پایا جانا بھی نا ممکن تھا گویا یہ عیب آپ میں سرے سے موجود ہی نہیں تھا وہ ہمیشہ سر جھکائے مطمئن حالت میں رہتے تھے ان کا یہ تواضع کا انداز ان کی عزت و سر بلندی میں کوئی کمی نہیں آنے دیتا تھا ان کی دانائی اظہار کی محتاج نہیں تھی وہ بڑے باریک بین ،سادہ مزاج اور خاموش طبعیت تھے وہ بڑے اطمینان کے ساتھ با وقار انداز میں قدم اٹھا کے چلتے اگر جب کبھی کوئی شخص ان کے احترام میں اٹھنے کا ارادہ کرتا تو وہ اس کے اٹھنے سے پہلے جلدی سے گزر جاتے بڑھاپے نے ان کی نورانیت اور جاذبیت میں کوئی کمی نہیں آنے دی تھی ان کے سامنے لوگ بے ساختہ ان کی طرف کھیچے جاتے تھے مگر جب کسی کی طرف توجہ کرتے تھے تو وہ اپنی ہیبت اور شکوہ سے ان پر چھاہ جاتے تھے یہ ان کی سادگی اور طبیعت کی بے ساختگی کا جلوہ تھا وہ ہر شخص کے ساتھ اتنے مہربان تھے کہ ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ آپ صرف میرے ساتھ زیادہ مہربان ہیں اور اکثر لوگ ان کے بارے میں یہی کہتے سنائی دیتے تھے یہاں تک کہ انہیں تکلیف پہنچانے والا شخص بھی یہی کہتا تھا یہ ایک خدا داد وصف ہے۔
چنان لطف اوراست با جملہ کس                         کہ ہر کس بگوید مراہست و بس

ساری عمر کبھی کسی کو اپنی طرف متوجہ نہیں کیا وہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف سے ہٹا کر منازل عالیہ کو پانے کی طرف متوجہ کرتے تھے فرماتے تھے خدا مومنین کی دعا کو کبھی رد نہیں کرتا ان سے کہو کہ وہ خدا سے دعا مانگیں اس طرح کے الفاظ سے وہ اپنے آپ کو لوگوں کے درمیان گم رکھتے تھے انہوں نے کبھی اپنی کوئی کرامت بیان نہیں کی وہ ساری زندگی کرامات چھپاتے رہے اگر کوئی شخص واقف ہو گیا تو اس سے اقرار لیا کہ میری زندگی میں یہ بات ظاہر نہیں کرو گے اور کسی سے اس کا ذکر نہیں کرو گے یہ راز خدا ہے ہرگز فاش نہ ہو اور کوچہ و بازار میں لوگوں کی زبان پر نہ آنے پائے وہ اس معاملہ میں اتنے سخت تھے کہ اپنے اساتذہ کی کرامات کو بھی بیان نہیں کرتے تھے کہ کہیں اس قسم کی باتیں خود ان کے بارے میں نہ کرنے لگیں لوگوں نے پوچھا کیا وجہ ہے گزشتہ علماء سے کرامات ظاہر ہوتی تھیں اور یہ زمانہ کرامتوں سے خالی ہے جواب میں فرماتے کہ اس زمانے کے لوگوں کے لیے کرامتوں پر یقین کرنا مشکل ہے کرامتیں ہوں بھی تو یقین کوئی نہیں کرے گا اور صرف ان کے لیے رنج و زحمت ہی باقی رہ جائے گی کچھ لوگوں نے درخواست کی کہ خدا کی طرف سے آپ کو جو عطیات ملے ہیں وہ ہمیں بتائیں   فرمایا خدا کے عطیات بتانے کے لیے نہیں ہوتے کہا گیا کیا آپ نے انہیں لکھ رکھا ہے فرمایا یہ باتیں لکھنے کی نہیں ہوتیں با الفاط دیگر جو راز ہے اسے راز رہنا چاہیے۔

وہ ساری زندگی کرامات چھپاتے رہے اگر کوئی شخص واقف ہو گیا تو اس سے اقرار لیا کہ میری زندگی میں یہ بات ظاہر نہیں کرو گے اور کسی سے اس کا ذکر نہیں کرو گے یہ راز خدا ہے ہرگز فاش نہ ہو

عرفانیات اور سیر و سلوک ان کے علوم ظاہری کے راستے میں کبھی حارج نہیں ہوئے بلکہ آپ علوم ظاہری میں بھی اتنے مصروف رہتے تھے کہ جو شخص دیکھتا وہ یہی سمجھتا تھا کہ انہیں درس کے علاوہ کام نہیں اگرچہ ہر علم میں وہ نمایاں مقام رکھتے تھے لیکن کبھی انہوں نے خود نمائی نہیں کی اور نہ کسی علم کے بارے میں دعوی تخصص کیا یہاں تک مقام مرجعیت کے لیے بھی کبھی از خود دعوی نہیں کیا۔

حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اس مقام کے حامل صلاحیت میں ان کے برابر نہیں ہیں بلکہ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ اس امر کے لیے لوگ انہیں مجبور نہ کریں اور نہ اس کے لیے ان کا نام لیں آخر میں فرض عین سمجھتے ہوئے با امر مجبوری مقام مرجیعت کو قبول فرمایا عالم تشیع میں یہ پہلے عالم بزگوار ہیں کہ جنہوں نے نہ پوری طرح سے مرجیعت کو اختیار کیا اور نہ اس سے صرف نظر فرمایا متوسط درجہ علمائے دین کے لیے استعمال ہونے والے لقب کو بھی وہ اختیار کرنے پر راضی نہیں تھے یہاں تک کہ انہوں نے کبھی آیت اللہ کہنا بھی پسند نہ کیا۔

ان کا رسالہ عملیہ ١١٧ مرتبہ چھپا پہلی سات مرتبہ تو انہوں نے اس رسالے پر اپنا نام اور القاب تک شائع کرنے کی اجازت نہ دی تھی  اس کے بعد ١١٠ مرتبہ چھپا تو سر نامہ پر ان کے نام کے ساتھ سوائے العبد کے کوئی لقب شائع نہیں ہوا  رسالہ جتنی مرتبہ چھپا اس کے مصارف وجوہ شرعیہ سے ادا کرنے کی انہوں نے اجازت نہ دی اورنہ ہی اپنے رسالہ کو مفت تقسیم کرنے کی اجازت دی کہ اس طرح ان کی ذاتی شہرت کا باعث بنے گا جو انہیں پسند نہ تھی اپنے علمی نگارشات کو بھی نہ کبھی خود چھاپا اور نہ کسی دو سرے کو چھاپنے کی اجازت دی جو لوگ چھاپنے کے لیے اصرار کرتے تو فرماتے مجھ سے پہلے گزر جانے والے علماء کی تصنیفات ابھی تک بغیر چھپے پڑی ہیں وہ چھپنے کی زیادہ مستحق ہیں اگر کوئی زیادہ اصرار کرتا کہ ہم اپنے ذاتی خرچے سے آپ کی تصنیفات چھاپنا چاہتے ہیں تو فرماتے پہلے مجھے مرنے دو پھر چھاپ لینا۔

علم و عمل اور تدریس و عبادت میں اس حد تک پہنچے ہوئے تھے کہ جب کوئی شخص ان میں سے کسی ایک چیز کو  دیکھتا تو یقین نہیں کر سکتا کہ ان کے اندر دوسری باتیں بھی بدرجہ کمال موجود ہوں ان اوصاف میں وہ جتنے اونچے ہوتے چلے گئے اتنا ہی تواضع اختیار کرتے رہے اور سر جھکاتے چلے گئے  وہ اپنے آپ کو ہمیشہ چھوٹا خیال کرتے تھے یہاں تک جب کسی مجلس میں شریک ہوتے تو بزرگان اور علماء کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے عام لوگوں کے درمیان بیٹھ جاتے تھے ان کا ایک ایک منٹ مرتب پروگرام کے مطابق ہوتا تھا وہ لگاتار اپنی مصروفیات میں مشغول رہتے  مطالعہ لکھنا پڑھنا ،درس و تدریس و عبادات تمام واجبات و ضروریات کی ادائیگی بالکل مشینی انداز میں انجام دیتے تھے۔

روزانہ بیس گھنٹے تک اکیلے اپنے کام میں لگے رہتے جیسے وہ آرام سے تو نا واقف تھے ہم سوچتے تھے کہ ان کی عمر زیادہ ہو جائے گی تو کمزور ہو کر آرام فرمائیں گے بوڑھے ہونے پر بھی انہوں نے آرام نہ کیا بلکہ اپنی روز مرہ مصروفیات کو جاری رکھا مطالعہ اور درس و تدریس کے سلسلے میں اتنے محنت پسند اور پختہ کار تھے کہ اس سلسلے میں وہ بوڑھاپے کو بھی خاطر میں نہیں لائے۔

 ۹۵ سال کی عمر میں محنت سے روکے جانے اور درس و تدریس کو گھٹا دینے کے مشورے کے با وجود انہوں نے ایک درس کا مزید اضافہ کر لیا تھا جبکہ وہ اپنی عبادت میں بھی کوئی کمی نہیں کرتے تھے اور مستحبات کو بھی واجبات کی شرائط کے ساتھ ادا کرتے تھے صبح کے ڈیڑھ بجے سے جاگ کر وہ استغفار ،مناجات ،نماز شب ،نوافل ،تلاوت قرآن اور تدبر قرآن میں مشغول ہو جاتے تھے۔

نماز کی ادائیگی میں وہ اپنی پوری طاقت و توانائی صرف کرتے تھے یہاں تک کہ جوش وصال میں پسینہ پسینہ ہو جاتے اور آتش عشق الہیٰ ان کے وجود سے نمایاں ہوتی تھی

مسجد کی حاضری نماز صبح اور اس کی تعقیبات ،زیارت حرم مبارکہ اور روزانہ کے اوراد و وظائف اس کے علاوہ تھے نماز ظہرین اور اس کے مقدمات و نوافل و تعقیبات کے لیے تقریبا اڑھائی گھنٹے اور نماز مغربین کے لیے ساڑھے تین گھنٹے صرف کرتے تھے یہ مسلسل عبادات ١١ یا ١٢گھنٹے پر حاوی تھیں جمعرات و جمعہ اور مخصوص ایام میں تو یہ مصروفیات اور بھی بڑھ جاتی تھیں نماز صبح اور ظہر کے درمیان زیارت عاشور لعن و سلام کے ساتھ پڑھتے تھے مطالعہ اور درس اور تصنیف و تالیف کے دوران اگر فکر سے خالی ہوتے تو ان کی زبان ذکر میں مشغول ہو جاتی وہ اس بات کے قائل تھے کہ عبادات مطالعے اور تدریس میں رکاوٹ بننے کی بجائے ممد و مددگار ثابت ہوتے ہیں

نماز کے دوران خضوع و خشوع خشیعت و عروج اور معبود کے ساتھ راز و نیاز کے جلوے نمایاں ہوتے تھے انہیں نماز کی حالت میں اس قدر معراج حضوری ہوتا کہ وہ شہود عبودیت کے مرتبے تک پہنچ جاتے تھے ان کا لحن و لہجہ اس  کی گواہی اور شہادت دیتے تھے اور نماز کا آخری سلام وصال پروردگار کی نشاندہی کرتا تھا وہ نماز کی تعبیر و تعارف بڑے پر لطف انداز میں کراتے تھے فرماتے تھے اگر بادشاہان وقت لطف نماز سے واقف ہو جاتے تو دنیا کے سارے شوق و لذات چھوڑ کر نماز کے ہو جاتے۔
نماز کی ادائیگی میں وہ اپنی پوری طاقت و توانائی صرف کرتے تھے یہاں تک کہ جوش وصال میں پسینہ پسینہ ہو جاتے اور آتش عشق الہیٰ ان کے وجود سے نمایاں ہوتی تھی ان کے وجود کی نا توانی انکی بسیار مشقت نماز کو ظاہر کر دیتی تھی اور نماز کے بعد عام لوگوں کے ساتھ گھلنا ملنا ان کے لیے سنگین ہو جاتا تھا۔

نماز اور زیارت حرم کی کیفیت میں بڑا فرق تھا وہ حرم امام رضا (علیہ السلام) میں مقابل ضریح اتنی دیر مودب کھڑے رہتے تھے کہ ساتھ والے نوجوان تھک کر چور ہو جاتے اور بعض لوگ سوال بھی کرتے کہ آپ اتنی ضیف العمری میں اس قدر دیر تک کیوں کھڑے رہتے ہیں فرماتے فلاں مرجع کربلا میں چار چار گھنٹے حرم میں کھڑے رہتے ایک اور شخص نے یہی اعتراض کیا تو اس کے جواب میں فرمایا میں اس حالت میں اپنے آپ کو بہشت میں پاتا ہوں بہشت سے باہر آنا   کون گورا کرتا ہے۔

وہ ساری عمر سادہ خوراک استعمال کرتے رہے ان کی خوراک میں دو حصے روٹی اور چائے ہوتے تھے ان کی نیند اور استراحت دوسروں سے الگ تھلگ تھی بسا اوقات انہیں سونے کے لیے پورے چار گھنٹے بھی نصیب نہیں ہوتے تھے اور اس قلیل وقت میں ایک تہائی حصہ بیٹھے بیٹھے اونگھ لیتے تھے قلت نوم کے بارے میں سوال کیا جاتا تو فرماتے کہ فلاں بزرگوار صرف دو گھنٹے سوتے تھے وہ دو گھنٹے سو کر کیسے گزارا کرتے تھے میں نہیں سمجھ سکتا البتہ تین گھنٹے نیند سے گزارا ہو سکتا ہے یہ طریق استراحت ایام جوانی میں تھا بڑھاپے اور آخری ایام میں بیٹھے بیٹھے نیند کر لیتے صرف ایک تہائی سوتے تھے۔
گفتگو کا سلیقہ رکھتے تھے مگر گفتگو نہیں کرتے تھے کم گو تھے اور مختصر کلام کرتے تھے مگر جو بولتے دلوں میں بٹھا دیتے ان کی گفتگو رمزیہ انداز میں ہوتی جس کا سمجھنا سننے والے کے ذمہ ہوتا تھا۔

ان کے ایک مختصر جملے نے ایک طالب علم کے دل میں کتنا انقلاب اور آتش عشق پیدا کر دی کہ وہ راہ سلوک پر چل کر ایک عارف بزرگوار بن گئے وہ آقا سید عبدالکریم کشمیری تھے بارہا فرماتے تھے کہ مجھے چندان طویل گفتگو کی عادت نہیں ہاں اگر چاہوں تو پوری کتاب کو ایک جملے یا ایک مقالہ کو چند الفاظ میں بند کر سکتا ہوں ان کی گفتگو میں خلاصہ گوئی ،عصارہ گوئی اور اشارہ گوئی کا عنصر پایا جاتا اور اشارہ گوئی کا سمجھنا سب سے زیادہ مشکل تھا۔

نماز اور زیارت حرم کی کیفیت میں بڑا فرق تھا وہ حرم امام رضا (علیہ السلام) میں مقابل ضریح اتنی دیر مودب کھڑے رہتے تھے کہ ساتھ والے نوجوان تھک کر چور ہو جاتے

وہ اپنے سے زیادہ دوسرے مسلمانوں پر مہربان تھے فرماتے اگر ہم چین کے مسلمانوں کے لیے دعاء نہ کریں تو مسلمان نہیں وہ مسلمانوں کی پریشانیوں کو اپنی پریشانی خیال کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ شب قدر تمام انسان حتی چین کے کفار بھی دعاوں کے مستحق ہیں وہ گمراہ ہیں انہیں راستہ پانے کی ضرورت تو ہے وہ دوسروں کی مصیبت کو اپنی مصیبت خیال کرتے تھے اگر بغداد میں بھی بم پھٹتا تو اسے اپنے لوگوں میں پھٹتا ہوا تصور کرتے اس قسم کا واقعہ ان کے درس و مطالعہ کو بھی متاثر کر دیتا تھا یہاں تک کہ استفتات میں بھی ان کی توانائی متاثر دکھائی دیتی۔

فتاوی میں زحمت کی بجائے رحمت کا پہلو ملحوظ رکھتے اور اپنے لیے زحمت اختیار کرتے فتوی کے ساتھ ساتھ زیادہ تر احتیاط پر عمل کرتے تھے اکثر اوقات سوال سننے سے پہلے سائل کو اس کا جواب دے دیتے تھے  مگر اس طرح کہ اپنی غیب دانی کا اظہار بھی نہیں ہونے دیتے تھے اگر کوئی پوچھتا کہ ذہن خوانی اور غیب دانی بھی ممکن ہے تو فرماتے نجف اشرف میں اس سے زیادہ کرامت رکھنے والے بزرگ موجود تھے۔
اپنے کشف و مکاشفات کو کبھی ظاہر نہیں کرتے تھے کبھی کبھی شبہ خواب کے پردے میں لپیٹ کر بیان کر دیتے تھے اور اس میں بھی اپنا نام لینے کی بجائے کسی اور کی طرف منسوب کر دیتے تھے اگر پوچھا جاتا کہ یہ کشف کس نے بیان کیا تو فرماتے فرض کریں بیان کرنے والے نے کہا ہو کہ میرا نام ہرگز ظاہر نہ کرنا۔

اگر انقلاب ایران کی کامیابی اور اس کے انجام کے بارے میں خبر دی یا آیت اللہ خوئی کو عراق کی شورش سے پہلے عراق سے باہر چلے جانے کا کہا یا لبنان کی جنگ سے ٣٣ روز پہلے جنگ کے بارے میں بتایا اور مخصوص دعاء تعلیم کی اور پھر اس جنگ کے خاتمے سے چند دن پہلے ان لوگوں کو پریشان اور بد دل پا کر انہیں ڈھارس دی کہ ہمت نہ ہارو فتح مند ہو جاو گے یا اپنی رحلت کے بعد پیش آنے والے واقعات کے بارے میں بتایا اور دعاء کی اگر ان سب باتوں میں غور کیا جائے تو کسی ایک واقع میں بھی انہوں نے اپنی طرف نسبت نہیں دی انہوں نے اپنی گفتگو میں کبھی لفظ میں استعمال نہیں کیا اسی طرح وہ اپنے استقبال اور پذیرائی کو بھی کسی صورت پسند نہیں کرتے تھے۔

جوانی تا آخر عمر نہ عمرہ کے لیے گئے اور نہ عتبات عالیات کی زیارت کے لیے گئے حالانکہ یہ مقامات ان کے پسند یدہ ترین مقامات تھے بعض اوقات خود ذکر کرتے تھے کہ میرا وہاں جانے کے لیے بہت دل کرتا ہے مگر طالبعلم کی حیثیت کہ وہاں جا کے مزید علم حاصل کروں لیکن اب یہ سب کچھ ممکن نہیں۔

وہ شہرت پسندی سے اس حد تک گریزاں تھے کہ کسی کتاب یا رسالہ کے صفحہ پر اپنا ذکر گوارا نہیں کرتے تھے اور نہ ہی انہیں یہ پسند تھا کہ ریڈیو یا ٹی وی کے ذریعے ان کا تذکرہ کیا جائے انہوں نے نا صرف روحانیت بلکہ شیعی مرجیعت کے لیے بھی ایک جدید نمونہ پیش کیا اور انہوں نے ثابت کیا کہ صدر اسلام کی طرح آج بھی لوگوں کے دلوں پر حکومت کی جا سکتی ہے اور زندگی کو ہر پہلو سے مکمل زاہدانہ طریقے سے گزارا جا سکتا ہے اور انہوں نے تمام علماء ،مراجع ،روحانی افراد حتی کہ ہر عام مسلمان کے لیے اپنی زندگی نمونہ بنا کر حجت قرار دے دی اور اس نقطہ کا بزرگ علماء نے اقرار کیا ہے کہ وہ اپنے تعارف اور شہرت میں خود سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔

شاید سالہا سال درکار ہوں گے کہ ہم اس طریقے کے ساتھ ان کی زندگی کے واقعات کو سمجھ سکیں اور پھر دوسروں تک پہنچا سکیں زندگی میں ہر قدم پر ان کے مکتوم و مخفی رہنے کے سبب خود ہمارے لیے اس سر بستہ راز تک پہنچنا دشوار ہے ہم خداوند عالم سے طلب توفیق کی دعا ہی کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں ان کی حکیمانہ زندگی کو سمجھنے کی توفیق دے تا کہ ہم ان اسرار سے خود واقف ہو کر دوسروں تک انہیں آسان طریقے سے پہنچا سکیں۔

تازہ ترین مضامین

پروفائلز