مرکز

در حال بارگیری...

راہ کمال کا قافلہ سالار خاندان

 عرفان و روحانیت کا راستہ طے کرنے  کے لئے خاندان اہلبیت(ع)سے محبت و عقیدت کا رابطہ رکھنا بنیادی شرط ہے  ہم اس میدان میں عالی رتبوں تک پہنچنے والے اشخاص کی زندگی  کے حالات دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میدان کا ہر شاہسوار اسی خاندان عصمت سے وابستہ نظر آتا ہے بلکہ شناخت  دین  کے لئے بھی اس خاندان  کے ساتھ وابستگی بہت ضروری  ہے ا ور آیت  اللہ  بہجت  اپنے اساتذہ  کی طرح علم و روحانیت کی کسی بھی منزل کو طے کرنے  کے لئے اس خاندان  کے ساتھ وابستگی کو بنیادی عقیدہ قرار دیتے تھے۔ 

عرفان و روحانیت کا راستہ طے کرنےکےلئےخاندان اہلبیت (ع) سے محبت و عقیدت کا رابطہ رکھنا بنیادی شرط ہے ۔

چنانچہ وہ  اوائل عمر ہی سے اس خاندان کی اولین شخصیت حضرت امیرالمومنین  (ع)سے والہانہ عقیدت رکھتے  تھے  اور اتنے والہ و شیدا تھے کہ اسی زمانے میں حضرت امیر  (ع) کی منقبت میں اشعار  کہنے لگے تھے وہ یقین رکھتے تھے کہ جس طرح حضرت علی (ع) کو اس خاندان میں بلحاظ امامت مقام اولیت حاصل ہے اس طرح سے علم و عرفانیات  کے اولین قافلہ سالار بھی وہی ہیں بقول آیت اللہ طباطبائی حضرت امیر (ع) قلعہ ولایت  کے سب سے پہلے فاتح تھے۔ 

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت آیت اللہ بہجت حضرت امیر (ع) کے ساتھ توسل  کے بہت سے طریقوں سے متعارف کراتے تھے چنانچہ ان کی شخصیت  کے اس پہلو کو  آشکارکرنا بجائے خود ایک راہ توسل ہے چنانچہ قبل از انقلاب بھی ان کا  یہ طریقہ تھا کہ شہادت  کے ایام  اور ہر جمعہ کو  جو محافل و مجالس عزا تشکیل دیتے تھے ان میں وہ خود بذات خود خطاب فرماتے تھے  اور ان کا خطاب زیادہ سے زیادہ فضائل و مصائب اہلبیت(ع)  پر مشتمل ہوتا تھا۔ 

 آیت اللہ مصباح کہتے  ہیں کہ ہمیں تعجب ہوتا تھا کہ ان محافل و مجالس کو سراسر اس قسم  کے ذکر سے مزین کرنا کہاں تک مناسب ہے بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ حوزہ علمیہ میں ہم   بڑی حد تک ان محافل  کے محتاج تھےکیونکہ ہمارے لئے سب سے پہلے خاندان ولایت  کے ساتھ اپنی عقیدت کو راسخ و پختہ کرنے کی ضرورت ہے  یہ عقیدت جس قدر پختہ ہوتی ہے اسی قدر علم و عرفان  کے مسائل مطرح ہوتے چلے جاتے ہیں حضرت آیت اللہ بہجت اس راز کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے اسی وجہ سے وہ حوزہ علمیہ میں اوائل ایام ہی سے اس بنیاد کو پختہ بنانے  کے لئے کمر بستہ ہوگئے تھے۔  

تازہ ترین مضامین

پروفائلز