۱۔ ایک شخص حضرت آیت اللہ بہجت کے آشنا اور معتقد تھے
ایک بار وہ انھیں اپنے دیہات میں لے گئے اس شخص کے گھر سے سو میڑ کے فاصلے پر ایک باغ تھا جب باغ کے مالک کو آقا کی تشریف آوری کے بارے میں علم ہوا تو وہ حاضر خدمت ہوا اور استدعا کی کہ آپ میرے باغ میں تشریف لے چلیں آپ نے فرمایا چشم مگر تشریف نہ لے گئے اس طرح دو چار مرتبہ باغ کے مالک نے استدعا دہرائی اور آپ ہر بار چشم فرماتے رہے مگر تشریف نہ لے گئے آخر ایک بار صبح کے وقت اس نے کہا آقا جان آپ ہر بار چشم فرماتے ہیں مگر تشریف نہیں لاتے آج آپ میرے ساتھ وقت مقرر کریں کہ کب تشریف فرما ہوں گے فرمایا انشاء اللہ جمعہ کے روز چلیں گے جمعہ کا دن ہوا تو آپ کے میزبان دوست حضرت آیت اللہ بہجت کو لے کر باغ کی طرف چلے باغ میں داخل ہونے سے ابھی چند قدم دور تھے کہ عبا بچھا کر بیٹھ گئے اور کتاب کھول کر مصروف مطالعہ ہو گئے۔
٢۔ آپ کے استاد گرامی عربی ادبیات میں بڑے ما ہر تھے ایک بارکسی حدیث کے معانی سمجھنے کے لئے لغت کی کتاب قاموس منگوائی جس لفظ کے معنی دیکھ رہے تھے اس کی وضاحت میں ایک شعربھی لکھا ہوا تھا استاد گرامی نے ہر چند اس شعر پر غور کیا مگر مفہوم سمجھ میں نہ آیا حاضر درس شاگردوں سے فرمایا کہ ذرا اس شعر کو غور سے پڑھو اس کا کیا مفہوم ہے۔
شاگردوں نے باری باری دیکھا جب آیت اللہ بہجت کی باری آئی تو اس شعر کو غور سے پڑھا اور اس وقت اس کا مفہوم وضاحت سے بیان کر دیا۔
ان کے استاد حضرت آیت اللہ قاضی بہت خوش ہوئے اور فرمایا:اشہد انک فاضل میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ یقینا فاضل شخصیت ہیں
اس واقعہ کے بعد استاد محترم انھیں ہمیشہ فاضل گیلانی کے نام سے پکارتے تھے۔
٣۔ جس زمانے میں حضرت آیت اللہ بہجت نجف اشرف میں تحصیل علم میں مشغول تھے ایک شخص ان کے ہم کمرہ تھے وہ کہتے ہیں کہ حضرت آیت اللہ کی عادت تھی کہ بعد شام چراغ روشن کر تے اور مطالعہ میں مشغول ہو جاتے کچھ عرصہ کے بعد یوں ہوا کہ آپ شام کے کھانے سے فارغ ہوکر بغیر چراغ روشن کئے بستر پر سو گئے میں نے خیال کیا کہ شاید اب صبح کی اذان کے وقت اٹھیں گے میں جب اذان کے وقت بیدار ہوا تو انھیں مصروف عبادت پایا ایک عرصہ تک یہی معمول رہا تقریبا ٦ ماہ بعد میں نے دیکھا کہ شام کے وقت انھوں نے چراغ میں تیل ڈالا اسے روشن کیا اور حسب سابق مصروف مطالعہ ہو گئے یہ بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی کہ اتنے دنوں چراغ نہ روشن کرنے کا سبب یہ تھا کہ ان کے پاس تیل ختم ہو گیا تھا انھوں نے اس اہم حاجت کو بھی کسی کے سامنے ظاہر نہ کیا۔
٤۔ درس سے فارغ ہوکر گھر جانے کے لئے گاڑی میں سوار ہوئے ایک ساتھی جو ہمراہ تھے ان کا بیان ہے کہ میں نے دل میں سوچا کیا اچھا ہوتا اسی دوران حضرت آیت اللہ بہجت مجھے کوئی نصیحت فرماتے جو میرے لئے ہمیشہ کار آمد ثابت ہوتی تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ انھوں نے از خود یہ فرمایا:
لب بند،چشم بند و گوش بند گر نبینی سرها بر من بخند
اپنا منہ،اپنی آنکھیں اور اپنے کان بند رکھو اگر تمھیں اس سے فائدہ نہ پہنچے تو مجھ پر ہنسنا۔
٥۔ ایک اہل علم نے آپ سے سوال کیا کہ جنات کوتسخیر کرنے کا کیا حکم ہے ؟
آپ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا(بلکہ)تسخیر نفس ضروری ہے یعنی اگر ہم خود ٹھیک ہو جائیں۔
٦۔ جب آیت اللہ بہجت مشہد مقدس میں مقیم ہوتے تھے اور اپنے مکان سے روانہ ہوکرحرم مقدس جاتے تھے تو راستے میں تعقیبات جاری رکھتے تھے صبح دم حرم جاتے ہوئے یہ دعا لبوں پرہوتی تھی۔
اللہم انی اسئلک خیر اموری کلہا و اعوذ بک من خزی الدنیا و عذاب الآخرة
اور چاروں قل پڑھتے تھے اور پھرقبل طلوع آفتاب اور بعد طلوع آفتاب کی دعا پڑھتے تھے حرم مقدس میں قدم مبارک کی سمت سے داخل ہوتے تھے راستے میں آنے والی قبور علماء پر فاتحہ خوانی کرتے تھے دارالزہد میں ایک گھنٹہ بیٹھتے تھے اکثر و بیشتر یہاں کھڑے ہوئے دعا و زیارت پڑھتے تھے اس حالت میں آنکھیں بند رکھتے تھے اور آپ کو جاننے والے افراد کثرت سے جمع ہوکر سامنے بیٹھ جاتے تھے اور آپ کے چہرہ کو تکتے رہتے تھے دعا کے بعد ضریح مبارک کی طرف آہستہ آہستہ بڑھتے اور سامنے کھڑے ہوکر آنکھیں بندکر دیتے تھے پوچھا گیا کہ آپ مقابل ضریح مبارک آنکھیں کیوں بندکر دیتے ہیں کیا اس بارے میں معصوم (علیہ السلام) سے کوئی روایت وارد ہے فرمایا روایت کوئی نہیں ہے لیکن اس طریقے سے ذہن مرکوز رہتا ہے۔
پھر مقابل ضریح مقدس زیارت امین اللہ پڑھتے اور پھر ضریح مقدس کو بوسہ دیتے پھر نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور نماز جعفرطیار بجا لاتے تھے اور نماز کے بعد زاد المعاد میں وارد شدہ دعا پڑھتے تھے پھر صحن سقا خانہ میں آکر مرحوم نخودکی اور مرحو م حر آملی کی مرقد پر فاتحہ خوانی کرتے تھے اور پھر حرم مقدس واپس آتے ہوئے گھر تک حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی دعا صباح کو لب پر جاری رکھتے تھے یہ آداب زیارت تھے جن پر وہ جوانی سے بڑھاپے تک کار بند رہے۔
٧۔ حرم مبارک حضرت امام رضا (علیہ السلام) میں ایک طالب علم نے آپ سے سوال کیا آپ نے اسے جواب دیا پھر اس نے دوسرا سوال کیا تو آپ نے تھوڑا توقف کرنے کے بعد فرمایا میں یہاں گدائی کرنے کے لئے آیا ہوں مجھے کیوں محروم کرتے ہو۔
٨۔ ہم مشہد میں تھے کہ شہید مطہری نے اصرار کیا کہ آپ میرے ساتھ فریمان چلیں علامہ طباطبائی بھی وہاں مقیم ہیں دو چار دن ساتھ رہیں گے پدربزرگوار نے وہاں جانے سے انکار کر دیا تیس سال کے بعد ایک بار جب ہم مشہد مقدس پہنچے تو پدربزرگوار کی طبیعت خاصی ناساز تھی یہاں تک کہ وہ چند روز تک حرم مطہر بھی نہ جا سکے۔
مگر اس دوران بقصد شفا و تندرستی مجلس عزا میں ضرور حاضر ہوتے رہے مجھے فرمایا کہ دنیا عجیب ہے کیا تمھیں یاد ہے کہ شہید مطہری نے فریمان چلنے کے لئے اصرار کیا تھا مگر میں نہیں گیا تھا مومن کی درخواست کو رد کرنا میرے لئے بڑا دشوار ہوتا ہے اس لئے نہیں گیا تھا کہ چند مرتبہ زیارت حرم سے محروم رہ جاتا اور اب ایک ہفتہ ہو چکا ہے کہ میں بیماری کے سبب زیارت حرم کے لئے نہیں جا سکا۔
٩۔ آقا علی کا بیان ہے کہ ایک شخص نے مجھے کچھ رقم دی اور کہا آقا بہجت کی خدمت میں پیش کر دینا درس کے بعد میں ان کے پاس گیا اور کہا کہ یہ رقم فلاں شخص نے دی ہے اورکہا ہے کہ آقا جان کو دے دو یہ سن کران کا چہرہ متغیر ہو گیا اور فرمایا یہ بندہ کو کیوں دے رہے ہو۔
١٠۔ ایک شخص ہمارے مکان پر آیا اور دروازے پر کھڑے ہوکر کہا آقا کیا آپ باہر تشریف نہیں لائیں گے پدربزرگوار گئے اور فرمایا بتائیے آپ کا کیا مسئلہ ہے اس نے تھوڑا سا سوچا تو چہرہ سرخ ہوگیا اور معذرت کرنے لگا آپ نے خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا کہ یہ تمہاری عینک کا قصور ہے کہ وہ باریک بین نہیں ہے۔
١١۔ حرم حضرت معصومہ (علیہا السلام)کے مقابل خیابان ارم کے سامنے ایک گلی میں میری دوکان ہے یہ بڑی قدیم گلی ہے جو عموما پرسکوت رہتی ہے اس میں پرانی طرز کے گھاس اور گارے کے لپے ہوئے مکانات اور در و دیوار ہیں دوکان کا کاروبار کبھی مندہ نہیں رہا۔
ایک دن ایک شخص کچھ خریدنے کے لئے میری دوکان پر آیا اچانک اس نے سامنے ایک روحانی بزرگوارکو دیکھا جس کے پیچھے پیچھے بہت سے لوگ جار ہے تھے اس نے پوچھا یہ کون بہلول ہیں میں نے تعجب سے کہا یہ بہلول نہیں آیت اللہ بہجت ہیں یہ سننا تھا کہ وہ بغیرخریدے اس طرف دوڑ پڑا چندمنٹ کے بعد واپس آیا تو کہا میں یقین نہیں کر سکا کہ یہ آیت اللہ بہجت ہیں اتنے سادہ اور متواضع۔
١٢۔ ایک شخص نے کہا کہ میں آیت اللہ بہجت کو اپنی گاڑی پر پہنچانے کےلئے گیا تو ان سے استدعا کی کہ میری والدہ بیمار ہیں ان کے لئے دعا فرمانا اس بات کے پانچ سال بعد جب کبھی میں ان کے پاس جاتا تو وہ ہر بار میری والدہ کی صحت کے بارے میں سوال کرتے تھے کہ اب ان کا دل کیسا ہے حالانکہ وہ دو تین سال پہلے مکمل شفا یاب ہوچکی تھیں اور میں ان کی بیماری کو بھی بھول چکا تھا۔
١٣۔ آیت اللہ بہجت دوکان میں داخل ہوئے اورمجھ سے سودا طلب کیا میں نے سودا تول کر ان کے حوالے کیا اورکہا اس کی قیمت ٢٥ قران ہے فرمایا یہ ٢٥ قران تمھیں دینے ہیں یا مجھے میں چونک گیا اورکہا آقا اس کا کیا مطلب ہے تو فرمایا یہ تمہارے ترازو میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ٢٥ قران مجھے اداکرنے ہوں گے اس وقت میری حالت کچھ ٹھیک نہیں تھی اور آقا شوخی پر آمادہ تھے فرمایا کیا تم نہیں دو گے میں نے کہا دیتا ہوں فرمایا یہ دے رہے ہو تو ٢٥ قران بھی دو۔
میرا لہجہ کچھ تیز ہوگیا اورکہا کہ جنس بھی دوں اور ا س کی قیمت بھی دوں فرمایا اس میں کیا حرج ہے کارخیر بری بات تو نہیں خراب طبیعت کے باوجود میں نے اپنے آپ پر جبرکر کے مسکراہٹ ظاہرکی دیکھا تو فرمایا ہاں اب ٹھیک ہے اپنے ٢٥ قران لے لو۔
١٤۔ ایک مدح خواں کابیان ہے کہ میں مجلس میں پیش خوانی کےلئے حضرت امام زمانہ (علیہ السلام) کی شان میں کچھ اشعار پڑھا کرتا تھا ایک دن غزل کے انداز میں سرکارکی قد و قامت،چہرہ،گیسو اور چشم و رخسار کی تعریف میں اشعار پیش کئے آقا بہجت نے مجھے کہلا بھیجا کہ حضرت حجت (علیہ السلام) کے جسمانی اوصاف باریک بینی کے ساتھ بیان نہ کر ان کی رفعت شان اورعظمت مقام بیان کر۔
١٥۔ ایک شخص نے آقا بہجت کے سامنے ٹافیوں کا پیکٹ پیش کیا آپ نے اس میں سے ایک مٹھی بھرلی اسے حیرت ہوئی اورخوش بھی ہوا اس کا خیال نہیں تھا کہ آپ اس پیکٹ سے ایک آدھ ٹافی بھی اٹھائیں گے چہ جائیکہ مشت بھر آیت اللہ بہجت کے راستے میں جو بچہ ملتا گیا آپ اسے ایک ایک ٹافی دیتے گئے۔
١٦۔ پہلے میں کھانا لایا تھا اب تمہاری باری ہے ایک کمرے میں دو آدمیوں کے درمیان یہ بحث لمبی ہوگئی ان کے درمیان طے تھا کہ وہ باری باری خوراک لایاکریں گے نماز کا وقت ہوگیا نماز میں گئے نماز سے فارغ ہوکر آقا بہجت کے ہمراہ ان کے مکان پر آئے اور وہاں بیٹھ گئے۔
چند منٹ کے بعد آقا اٹھے اور کمرے سے باہر چلے گئے باقی لوگ اٹھنے کا ارادہ کر رہے تھے کہ آقا صاحب چاولوں کا ایک تھیلا لے کر واپس آگئے اور فرمایا کہ اس مرتبہ میری باری تھی کہ میں چاول لاکر دیتا۔
١٧۔ حضرت آیت اللہ بہجت فرماتے ہیں کہ ہم حرم معصومہ (علیہا السلام) میں تمام آئمہ معصومین کی زیارت کرتے ہیں اس روایت کی تشریح ہے کہ حضرت صادق آل محمد: فرماتے ہیں ہم اہلبیت کا ایک حرم ہے اور وہ قم ہے۔
کتنی دیر کے بعد مجھے ان کے اس فرمان کا مطلب سمجھ آیا تھا۔
١٨۔ مسجد فاطمیہ میں،میں نے دیکھا کہ آقا بہجت مسکراتے ہوئے چہرہ کے ساتھ میری طرف آرہے ہیں میرے پاس پہنچے تو فرمایا کیا تمہارے پاس رقم ہے میں حیران رہ گیا اور ان سے اس سوال کی وجہ پوچھے بغیر کہا ہاں موجود ہے پھر مجھے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ سوئی اور دھاگا خرید آؤ تا کہ میں اور تم دونوں اپنا منہ سی کر بندکر لیں یہ سنا تو میری زبان گنگ ہوگئی اور اپنے آپ سے بے خبر ہو گیا تلخ مسکراہٹ کیساتھ کہا کہ میں اپنی زبان کو بالکل بند کرلوں اورکسی سے نہ بولوں اور سب کچھ دیکھتے ہوئے یہ سمجھ لوں کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا۔
فرمایا رازوں کو افشا مت کیا کرو انھیں ظاہر کرنا تیرے لئے تکبر کاباعث ہوگا اور دوسروں کے لئے بے یقینی اورحسد و دشمنی کا سبب۔
١٩۔ ایک بارسخت سردی کے موسم میں حرم حضرت معصومہ (علیہا السلام) کی زیارت کے لئے گئے تو تعمیرات کی وجہ سے حرم کے دروازے بند تھے انھوں نے دروازہ کھولنے کے لئے نہیں کہا اگر کہتے تو یقینا دروازہ کھل جاتا مگر آپ نے اپنے معمول کے مطابق فرمایا کوئی حرج نہیں باہر کھڑے ہوکر ہم سلام کریں گے اور لوٹ جائیں گے ایک دو گھنٹے متواتر سردی میں زمین پر بیٹھے رہے نماز پڑھی،دعا مانگی اور واپس لوٹ گئے۔
٢٠۔ ہر صبح جمعہ آقا بہجت کے گھر پر مجلس سید الشہداء (علیہ السلام) کا پروگرام ہوتا تھا آپ کا طریقہ تھا کہ دروازے کی چوکھٹ میں بیٹھ جاتے اورمجلس میں آنے والے ہرشخص کا کھڑے ہوکر استقبال کرتے بلا امتیاز چاہے کوئی ہوتا حتی کہ اگر کوئی بچہ بھی آتا تو اس کے لئے دعا کرتے اورمحبت کا اظہار فرماتے اورکبھی فرماتے تھے مصائب شہزادہ علی اصغر (علیہ السلام) پڑھو۔
ایک شخص کابیان ہے کہ میں جمعہ کی مجلس میں گیا آپ کا دروازہ کھلا آپ اس انداز میں سینے پر ہاتھ رکھ کر اٹھے جیسے کسی خاص شخص کا استقبال کیا ہو مگر مجھے نظرکوئی نہ آیا مجھے بڑا تعجب ہوا آقا بیٹھ گئے پھر میں متوجہ ہوا کہ وہ دس سال سے بھی کم عمر کا بچہ تھا جس کے لئے آقا صاحب اٹھے تھے۔