سن١٤٠٣ ہجری قمری کو یکم محرم تھی عزاداری کا فیض حاصل کرنے کی غر ض سے میں حضرت آیت اللہ بہجت کی خدمت میں حاضر ہواعزا خانے میں جا کر میں ان کے نزدیک بیٹھ گیا مجلس شروع نہیں ہوئی تھی روضہ خواں کے آنے کا انتظار تھا وہاں بیٹھے ہوئے لوگ آپس میں عزاداری کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے وہاں بیٹھے ہوئے ایک فاضل شخص نے کہا میں حضرت شاہ عبد العظیم (علیه السلام) کی زیارت کے لیے تہران گیا ہو اتھااستراحت کی غرض سے مدرسہ برہانیہ میں گیا تو ایک اہل علم سید نے مجھ سے بیان کیا میں ایام محرم میں مازندران کے ایک نواحی دیہات میں مجالس پڑھ رہا تھا وہاں سے فارغ ہونے کے بعد رات کو ایک دوسرے مقام پر پڑھنے کے لیے چلا جاتا تھا .
ایک رات میں مجلس پڑھنے کے لیے جا رہا تھا کہ راستے میں، میں نے کچھ حیوانات کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا میں خوف زدہ ہو گیا کہ اب جان کی خیر نہیں پھر سوچا بچنے کی کوئی صورت نہیں مجھے چلتے رہنا چاہیے جو ہو گا سو ہو گا وہ حیوانات قریب آکر میرے اردگردجمع ہوگئے میں نے حسین حسین (علیه السلام) کہنا شروع کر دیا
وہ بھی اپنی زبان میں کچھ بولنے لگے پھر میں نے روضہ خوانی شروع کر دی اور وہ عزاداری کرنے لگے جب میں خاموش ہوا تو ایک حیوان میری طرف بڑھا جو ان میں سب سے بڑا تھا اور میرے پاس پہنچ کر اس نے اپنی پشت جھکا دی جیسے سوار ہونے کا اشارہ کر رہا ہو میں اس پر سوار ہو گیا وہ مجھے اٹھا کر وہاں آیا جہاں مجھے پہنچنا تھا اس نے مجھے اتارا اور واپس چلا گیا.
آیت اللہ بہجت نے فرمایا اس قسم کا واقعہ عام لوگوں کے سامنے مت بیان کیا کرو کیوں کہ بہت سے لوگ باور نہیں کرتے اوراسے قصہ وافسانہ سمجھ لیتے ہیں .
نجف میں ایک اہل عرفان وفلسفہ عالم دین جب مثنوی کے بارے میں گفتگو کرتے تو فرماتے تھے کہ مثنوی کے اشعار ہر شخص کے سامنے مت پڑھا کرو کیوں کہ وہ سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے اس کی مثال یوں ہے کہ جیسے آپ کسی چھوٹے بچے کے سامنے جماع اور اس کے لطف ولذت کے بارے میں بیان کریں وہ بھلا کیا سمجھ سکتا ہے .
انہوں نے ایک شہر کے فاضل سے نقل کیا انہوں نے فرمایا کہ میں نے ایک بار زیارت کے لیئے کربلا معلی کا سفر کیا وہاں میں نے اپنے خادم سے گوشت پکانے کی فرمائش کی اس نے گوشت چولہے پر رکھا بڑی دیر تک کوشش کی مگر وہ نہ گلا اور نہ اس میں تبدیلی آئی ویسے ہی سرخ کا سرخ رہا میں نے خادم سے کہا ابھی گوشت نہیں پکایا اس نے کہا بڑی دیر سے آگ پر رکھ کر پکانے کی کوشش کر رہا ہوں مگر اس پر آگ اثر ہی نہیں کرتی.
میں نے پوچھا اس گوشت کے لانے کا کیا قصہ ہے اس نے کہا گوشت جیب میں رکھ کرمیں زیارت کے لیے حرم سید الشہداء (علیه السلام) چلا گیا تھا گوشت ساتھ تھا اب اسے پکانے کی کوشش کر رہا ہوں تو وہ پکتا نہیں تو عالم دین نے کہا پھر یہی وجہ ہے واقعہ نگار کہتا ہے کہ میں نے اس شخص سے پوچھا کہ عالم دین نے اس کا سبب بیان نہیں کیا اس نے کہا نہیں.
آیت اللہ بہجت نے فرمایا اس کی وجہ یہی ہے کہ جو حرم سیدالشہدا ء (علیه السلام) میں داخل ہو جائے اسے آگ نہیں جلاتی.