مرکز

در حال بارگیری...

دست وترنج

آیت اللہ بہجت کے بارے میں کچھ لکھنا کار دشوار ہے اس وقت جب کہ میں قلم اٹھا کر لکھنے کی فکر میں ہوں کہ مجھے مشکل پیش آرہی ہے میرا دل پکار اٹھتا ہے کہ تم کیا لکھ سکتے ہو کیوں کہ ہونا تو وہی ہے جو وہ خود چاہتے ہیں اس طرح کئی بار کوشش کی مگر کسی نتیجے تک نہیں پہنچا ایک دفعہ مجازستان کو خط لکھا کہ آیت اللہ کے خصوصیات سے آگاہ فرمائیں وہ مختلف پہلوئوں کو سامنے لائے تاکہ ہم انہیں پڑھ کر اس کا نچوڑ پیش کریں مگر اس صورت حال پر بھی میرا دل راضی نہیں ہو سکا تھا اس کار خاص کے لیے تو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو آزادانہ طور پر یہ کام کرے اس طرح آزاد کہ جس طرح خرمن کے ڈھیر سے ایک دانہ آزاد ہوتا ہے۔

ہمارے ذہن میں ان کے بارے میں ایک تصور ہے کہ وہ ایک عارف زاہد پارسا مقامات رسیدہ شخصیت تھے جن کے بارے میں بہت سی داستانیں ہیں کچھ منقول بھی ہیں اور لوگوں نے پڑھ کر انہیں اپنے لیے نمونہ قرار دے رکھا ہے ان کی شخصیت ہمہ جیہتی ہے اور بہت سے پہلو رکھتی ہے لیکن ان سب میں نماز کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور میں اسی کے بارے میں لکھ رہا ہوں اگرچہ کم و بیش حکایات اور دستور العمل بھی ہم نے لکھے ہیں اگرچہ ان کے شاگردوں نے ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے اور اپنے طور پر تفصیلات پیش کی ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ دریا کے مقابلے میں ایک قطرہ ہے۔
میں ان کی زندگی کے ایک ایسے گوشے سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جسے بہت کم کھولنے کی کوشش کی گئی ہے ان کی زندگی کے تمام زاویے عجیب و غریب انداز کے حامل تھے ہم جس زاویے سے بھی انہیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں ان کی پوری زندگی کچھ خاص اصولوں کے تحت نظر آتی ہے۔

وہ اصول کہ جن کے تحت ان کی نماز تھی ان کا عرفان تھا ان کا سکوت اور تکلم تھا ان کے شب و روز کے سوچ ،فکر اور عمل حاوی تھا جب ہم غور کرتے ہیں تو ان کے تمام کمالات کو ایک کلمہ میں سمو سکتے ہیں اور وہ ہے قرآن وہ ایک عارف تھے مگر ان کا عرفان شہود پر مبنی نہیں تھا قرآن پر مبنی تھا وہ ایک فقیہ تھے ان کی فقہ کا محور ان کا اجتہاد نہیں بلکہ قرآن تھا ہم ان کی زندگی کے جس گوشے کو دیکھتے ہیں ہمیں قرآن ہی قرآن نظر آتا ہے۔ 

وہ ہمیں تعلیم دیتے نظر آتے ہیں کہ تو اس طرح قرآن پڑھ تیری آنکھیں قرآن کی حقیقت کو دیکھ رہی ہیں تیرے کان قرآن کے براہین کو سن رہے ہیں اور تیرا دل قرآن کے بلند معارف کو محسوس کر رہا ہے تجھے یوں محسوس ہو کہ قرآن کو خالق قرآن سے حاصل کر رہا ہے گویا خدا قرآن کہہ رہا ہے اور تو سن رہا ہے خود سمجھ لیں کہ جب کوئی شخص اس طرح قرآن کی تلاوت کرے اور ان سب حقائق کو ملحوظ خاطر رکھے تو وہ کس منزل تک پہنچ جائے گا ہم قرآن کو خوش الحانی سے پڑہتے تو ہیں مگر کبھی یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ خدا ہمارے ساتھ کلام کر رہا ہے اگر اس طرح ہو جائے تو ماحول کا رنگ ہی تبدیل ہو جائے اگر قرآن کے واقعی چہرے کو ہم دیکھ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم ہاتھ کو ترنج سے شناخت کر پائے ہیں یا نہیں۔
قرآن ایسا نور ہے کہ اس کے سامنے دنیا کی تمام روشنی مدہم ہو جاتی ہے اور یہ روشنی اتنی تیز ہے کہ دوسری تمام روشنیوں کو بجھا کر سب پر حاوی ہو جاتی ہے اور پھر قرآن پڑہنے والا عالم شہود میں پہنچ جاتا ہے اگر ہم قرآن کو سمجھ کر پڑہتے اور اس پر صحیح طریقے سے عمل کرتے تو اس طرح ہم دوسرے تمام لوگوں کو اپنے ساتھ جذب و وابستہ کر لیتے کیوں کہ بہت کم تعداد کے سوا دوسرے سب اس روشنی کے طالب و خواہاں ہیں۔

آقا بہجت ایسے عارف کامل تھے کہ وہ پوری آگاہی کے ساتھ اپنے معیار کے مطابق ہم پر وارد ہونے والے سارے اثرات کو کھول کر بیان کر گئے یہی مقام ہے کہ جہاں ہم خیر و شر نیکی اور بدی خوب و نا خوب کے فرق کو ان کی نظر سے سمجھ سکتے ہیں اگر ہم قرآن سے فائدہ نہیں اٹھا سکے تو محض اس لیے کہ ہمارا یقین کمزور ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ ہم بار بار یہ کہتے ہیں کہ قرآن انسان سازی کا ایک نسخہ ہے اور وہ یقینا ہے اگر ہم گہرائی کے ساتھ انسان سازی کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ قرآن انسان سازی کو کس طریقے سے بیان کرتا ہے با الفاظ دیگر قرآن کیسا انسان بنانا چاہتا ہے انسان عالم ،انسان عارف ،انسان فقیہ یا انسان کامل۔

آقا بہجت بڑے لطیف پیرائے میں فرماتے تھے کہ قرآن پیغمبر ساز کتاب ہے اور پیغمبر دو قسم کے ہیں ایک وہ جنہیں خدا پیغمبر بنا کر بھیجتا ہے اور دوسرے وہ جو قرآن کے پیغام پر کما حقہ عمل کر کے اخلاق پیغمبری سے آراستہ ہو جاتے ہیں بنابریں قرآن پیغمبران کمالی کی تربیت کرتا ہے اور پیغمبر ساز ہے۔
میں یہ تو بتا چکا ہوں کہ آقا بہجت کی زندگی کا مبنی قرآن تھا اور یہ کہے بغیر بھی نہیں رہتا کہ ان کی نگاہ میں مثیل و عدیل قرآن ہستیاں بھی تھیں جو ہمسر قرآن ،ہم کفو قرآن ،ہم ردیف قرآن اور ثقل و ثانی قرآن تھے خدا کرے ہمارے دلوں میں قرآن و عترت (اہلبیت اطہار علیہم السلام) کا حقیقی عشق پیدا ہو جائے اور ہم قرآن و وارثان قرآن کی یکجائی کو پا لیں اور پھر ہم ان دونوں کو محور بنا کر عمل کی صورت میں ان کا عاشقانہ طواف کریں اور یہ جان لیں ان کی محبت اور عشق ہر معشوق کے عشق سے زیادہ لائق محبت و عشق ہے۔

شاید اب ہم آقا بہجت کے مبنی عرفان کو آ گئے ہیں ہم جو لینا چاہیں وہ قرآن و عترت سے لے سکتے ہیں یہ خدا کی دو رسیاں ہیں جنہیں مضبوطی کے ساتھ تھام کر نجات یافتہ ہو سکتے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں قرآن کو کیا مقام دیا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن کو الماری سے نکال کر اپنے دل میں محفوظ کر لیں اور قرآن کے ساتھ رہیں کیا ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن دوسری کتابوں کی طرح نہیں ہے قرآن وجود روحانی و نورانی ہے جو خدا کی طرف سے ہے اور اس نے عالم اجسام و اعراض میں ظہور کیا ہے آخری نقطہ یہ ہے کہ آقا بہجت نے ہم فارسی دان افراد کو ایک آسان فارسی تفسیر کی طرف توجہ دلائی ہے تاکہ اسے پڑھ کر قرآن کے ساتھ رابطہ پیدا کریں اور اپنی زندی میں نیا رنگ و بو پیدا کریں۔

قرآن کو سمجھنے کے لیے فارسی زبان میں آسان اور سادہ طریقے پر لکھی ہوئی تفسیر ،تفسیر منھج الصادقین ہے اس کا اول سے لے کر آخر تک ہمیں مطالعہ کرنا چاہیے اس کے مصنف ملا فتح اللہ کاشانی بزرگ علمائے تفاسیر سے ہیں اور ان کا شمار دسویں صدی ہجری کے اکابر علما میں ہوتا ہے ان کی تفسیر کاوش اور تلاش وجود شیعی ذخیرہ تفاسیر میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے ان کی تفسیر کا پورا نام تفسیر منہج الصادقین فی الزام المخالفین ہے  فارسی زبان کی تفاسیر میں اس کا منفرد مقام ہے اور خود مولف نے اسے لکھنے کے بعد اس کی تلخیص بھی لکھی ہے جس کا نام خلاصۃ منھج الصادقین ہے اور عصر حاضر میں اس کا نسخہ علامہ حسن زادہ آملی سے تحقیق شدہ ہے اور اس کی ۳ جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔

تازہ ترین مضامین

پروفائلز