ایک زمانے میں ،میں بہت زیادہ استخارے کرتا تھا انہوں نے فرمایا کہ استخارے کی بجائے مشورہ لیا کر مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا میں اس وقت روحانی لباس میں نہیں تھا میں ان کے گھر گیا اور مجھے فرمایا اول و آخر صرف یہی بات انہوں نے مجھ سے کہی پھر وہ اندر چلے گئے اور ہماری دل جوئی کے لیے دروازہ کھلا چھوڑ گئے میں نے ان سے جاتے جاتے سوال بھی کیا جس کا انہوں نے کوئی جواب نہ دیا یہ بات مجھے گراں گزری اور میں رونے لگا اسی وقت وہ واپس پلٹ آئے اور میری دل جوئی کی اور فرمایا اندر آجاو بارش آ رہی ہے۔
اگلے روز جب میں استخارہ کے لیے ان کے پاس حاضر ہوا اور صف میں کھڑا ہو گیا تو میری باری آنے پر انہوں نے مجھ پر نگاہ ڈالی اور بغیر کچھ پوچھے میری درخواست مسترد کر دی مجھے یہ بات عجیب لگی کہ وہ سمجھ چکے تھے کہ جس بات کا میں استخارہ کرانا چاہتا تھا وہ قابل استخارہ ہی نہ تھی میں اسی بات کا استخارہ کرانا چاہتا تھا کہ جس کے بارے میں کل میں نے سوال کیا تھا اور انہوں نے جواب نہیں دیا تھا۔