خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میں سن ٦٠ شمسی میں حوزہ علمیہ قم میں آ گیا اور مدرسہ حقانیہ میں سکونت رکھی حضرت آیت اللہ بہجت کی نماز کی خصوصیات کے بارے میں سنا تو شرکت کا شوق پیدا ہوا اور پوری بھاگ دوڑ کے ساتھ ان کی نماز میں شریک ہونے لگا پہلے ہمارا خیال تھا کہ وہ صرف شب جمعہ کی نماز پڑھاتے ہیں ان کی نماز کی کیفیت بڑی عجیب و غریب تھی جو انسان میں ایک عجیب جذبہ اور حالت پیدا کر دیتی تھی افسوس ہے کہ اس زمانے کی ان کی نماز کو ضبط میں نہیں لایا گیا ان کی نوجوانی کی زندگی اور آخر عمر کی نماز میں بڑا فرق تھا یہ فرق معنوی نہیں ہے بلکہ ظاہری اور جسمانی ہے۔
پہلے تو ہم شب جمعہ نماز میں شریک ہوتے رہے پھر پتہ چلا کہ وہ ساری نمازیں پڑھاتے ہیں اوائل میں ان کی ایک خاص شان تھی ان کی شخصیت میں کچھ ایسی ہیبت تھی کہ آسانی کے ساتھ کوئی شخص ان سے سوال کرنے پر اپنے کو آمادہ نہ پاتا مگر آخر میں مرجعیت کی بنیاد پر کچھ فرق پیدا ہو گیا تھا مجھے یاد ہے کہ جب میں ان سے واقف ہوا تو میری طالب علمی کا پہلا دوسرا سال تھا مسجد کے ساتھ والی گلی سے آقا بہجت تنہا گزر رہے تھے تو میں ان کے پاس گیا اور عرض کی آقا مجھے نصیحت فرمائیں انہوں نے فرمایا انسان کو چاہیے کہ وہ گناہ چھوڑ دے یہ ایسی نصیحت تھی جو عموما فرمایا کرتے تھے۔