آیت اللہ شبیری فرماتے ہیں کہ ان ایام میں جب حضرت آیت اللہ بہجت، آیت اللہ شیخ محمد کاظم شیرازی کی شاگردی میں تھے میں نے آیت اللہ شیرازی سے مشہد مقدس میں ملاقات کی تو میں نے آیت اللہ شیرازی کو ان کا بڑا قدر دان پایا وہ فرماتے تھے کہ آیت اللہ بہجت بڑی زحمت و توجہ کے ساتھ حصول علم و عرفان میں مصروف ہیں۔
جب آیت اللہ بہجت قم میں تشریف لائے تو انھیں دنوں میں،میں نے اور آقا سید مہدی روحانی نے ان سے گزارش کی کہ آپ ہمیں بحث تعبدی و توصلی کا درس خارج دیں انھوں نے قبول فرمایا اورتین ہفتے میں یہ درس حرم حضرت معصومہ(س) کے ایک حجرے میں جاری رہا ابتداء میرا طریقہ تھا جب وہ تشریف لاتے تو میں ان کی نعلین کو درست کر کے رکھتا تھا مگر میں نے محسوس کیا کہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے چنانچہ وہی ہوا کہ دو تین دن کے بعد انھوں نے پھر مجھے اس خدمت کا کبھی موقع نہ دیا وہ آتے تو اپنی نعلین اپنے ہاتھ میں اٹھا کر لے جاتے اور اپنی نشستگاہ کے ساتھ رکھ دیتے تھے۔
آقا سید مہدی جو اپنے علمی و فکری مقام کے لحاظ سے بڑے متواضع تھے ان کا کہنا تھا کہ آیت اللہ بہجت کے دروس بعض اوقات اتنے گہرے اور دقت طلب ہوتے ہیں کہ ہم انھیں با آسانی نہیں سمجھ پاتے۔
ہم جتنا عرصہ درس لیتے رہے ہم نے ان کی دقت علمی کو خاص طور پرمحسوس کیا اور ہمارے علاوہ دوسرے احباب نے بھی ان کی دقت علمی کو تسلیم کیا وہ جتنا عرصہ درس دیتے وہ عام طریقے کے مطابق محض قرآن و حدیث کے حوالہ جات پر ہی مشتمل نہ ہوتا بلکہ وہ ان منابع پر بحث کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے نظریے،مطمع فکر سے بھی آگاہ کرتے جاتے تھے جوکہ ان کے اجتہاد کی علامت ہے دو تین ہفتے تک درس جاری رہا آقا سید مہدی جو اپنے علمی و فکری مقام کے لحاظ سے بڑے متواضع تھے ان کا کہنا تھا کہ آیت اللہ بہجت کے دروس بعض اوقات اتنے گہرے اور دقت طلب ہوتے ہیں کہ ہم انھیں با آسانی نہیں سمجھ پاتے۔