مرکز

در حال بارگیری...

غیرمرئی اثر

حضرت آیة اللہ بہجت سے میراتعارف ہواتواسوقت میری علمی صلاحیت کچھ کم نہیں تھی میں مختلف یونیورسٹیوں میں تدریس کی قابلیت رکھتاتھا  اور ١٥سال تک مختلف یونیورسٹیوں میں بحیثیت دینی مبلغ تبلیغات کرتا رہا   اورسات آٹھ سال تک مسلسل درس بھی دیتارہااور آخری سال سن ٧١ اور ٧٢ میں،میں دانشگا ہ شہید بہشتی میں تدریس کررہاتھا  .

پہلی دفعہ کلاس میں ایک فقہی بحث میرے لئے پریشانی کاباعث بن گئی اوروہ وفات حضرت پیغمبرکے ایام تھے میرااپنے خانوادے کیساتھ تہران سے مشہدمقدس جانے کاارادہ تھاچنانچہ  میں  ایک رشتہ دارکیساتھ مشہدمقدس پہنچ گیاآقائے بہجت اسوقت وہاں تھے میراذہن کلاس میں فقہی درس کی وجہ سے پریشانی کاشکارتھاجب آقائے بہجت کیساتھ میری ملاقات ہوئی تووہ ساری پریشانی دورہوگئی آقائے بہجت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ صرف انہیں دیکھنے سے پریشانیاں دورہوجاتی تھیں  اس طرح وہ غیرمرئی طورپرلوگوں کی مشکلات حل کرتے رہتے تھے.

مشہد میں ان کے   ساتھ ملاقات ہوئی توانہوں نے فرمایاکہ ہمارے ہاں مجلس عزاہوتی ہے اس میں آجایاکروایک باران کے مکان پر گئے توپھر تووہی فقہی کلاس والامسئلہ زیربحث آگیاتو انہوں نے مزاح سے کام لیا  میں نے ذکر کرتے ہوئے ان کے سامنے عرض کی کہ ایک خاتون اگر کسی مرد ڈاکڑ کے پاس جا کر علاج کرانا چاہتی ہے تو اس کے لیے پہلے تو یہ ہوناچاہیے کہ وہ مرد ڈاکڑ کی بجائے خاتون ڈاکڑ کے پاس جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو اور خاتون سپیشلسٹ ڈاکڑ موجود نہ ہونے کے سبب اسے مجبورا مرد ڈاکڑ کی طرف رجوع کرنا پڑے تو پھر مرد ڈاکڑ کوچاہیے کہ وہ خاتون کا علاج کرتے ہوئے کوشش کرے کہ اس کے جسم کے کسی حصہ کو ہاتھ لگائے بغیر یا اس پر نگاہ کیے بغیر اس کا علاج تجویز کر دے اور اگر اس طرح نہ ممکن ہو تو بھر جس حد تک بھی ممکن ہو سکےکرے اور اس کا علاج کر دے  .

اس دن یہ مسئلہ کلاس میں میری پریشانی کی وجہ اس لیے بنا تھا کہ جب ایک معالج ڈاکڑ کو ایک نا محرم خاتون کے علاج کرناپڑے تو اسے کتنی احتیاط کا سامنا کرنا پڑے گا   طالبعلموں نے اس بحث میں سنجیدہ ہونے کی بجائے جلد بازی کا مظاہرہ کیا تھا اور ایک شور برپا کر دیا تھا کہ علاج معالجہ کے سلسلے میں ان باتوں کی آخر کیا ضرورت ہے شور شرابے کے سبب کلاس جاری نہ رہ سکی اور میں نے دل برداشتہ ہوکردرس روک دیا تھا وہ طالب علم سب کے سب بڑی کلاسوں کے تھے سات آٹھ سال تک اپنے تعلیمی مراحل سے گزرنے کے بعد اب عملی طور پر ہسپتالوں میں علاج معالجہ کرنے کی تربیت کے لیے جانے والے تھے .

جب مشہد سے لوٹ کر میں تہران آیا اور دوسرے دن اپنی کلاس لی تو اس مسئلے کی بحث کو کسی صورت میں ان کے سامنے پیش کر کے دہرایا تو وہ پورے سکوت اور دلچسپی کے ساتھ سنتے رہے یہ سطح بالا کے ڈیڑھ سو طالبعلم تھے ایک گھنٹہ سے زیادہ لیکچر دینے کے بعد جب میں نے ان سے پوچھا کہ آج  کا لیکچر کیسا رہا تو انہوں نے کہا بہت عمدہ اور شاندار
میں نے کہا کہ پچھلے ہفتے بھی میں نے یہی بحث اسی طریقے سے پیش کی تھی تو انہوں نے کہا پچھلے ہفتے آپ کی بحث اس طرح موثر نہ تھی میں سمجھ گیا کہ یہ سارا اثر حضرت آیت اللہ بہجت کی ملاقات کے نتیجے میں تھا .

تازہ ترین مضامین

پروفائلز