حضرت آیت اللہ بہجت ان لوگوں میں سے تھے جن کی خصوصیت ہے کہ جو زبان کی بجائے عمل سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں وہ اپنی حرکات و سکنات کی طرف بہت متوجہ رہتے تھے اور ان کا حسب حال استعمال کرتے تھے ایک دفعہ ایک مجلس میں داخل ہوئے تو ایک صاحب نے اپنے پاس بیٹھنے پر اصرار کیا ان کے کہنے پر بیٹھ تو گئے مگر طبیعت سے صاف ظاہر ہوتا رہا کے انہیں وہاں بیٹھنا بالکل گوارا نہیں وہ اسی طرح لوگوں کی تربیت کرتے تھے اور ہر نشست و برخاست کسی نپے تلے انداز اور سوچے سمجھے طریقے سے ہوتی تھی کہ کہاں جانا ہے کہاں نہیں جانا کہاں جلد پہنچنا ہے کہاں دیر سے کس کے ساتھ خندہ پیشانی کا برتاو کرنا ہے اور کس کے ساتھ ناگواری کا ان کی ایک ایک حرکت عملی تبلیغ تھی اور ان کا یہ طریق کار اکثر اوقات لوگوں کی حفاظت کے سبب ہوتا تھا کیونکہ جان کی محافظت شرعا واجب ہے۔
ان کے مدارج عرفان میں کسی کو شک و شبہ نہیں تھا اور اہل فن اس بات سے خوب واقف تھے کے ان کا ہر رد عمل باطن کی روشنی پر منحصر ہے ایک شخص آپ سے ملنے کے لیے آئے آپ اس طریقہ سے اس کے ساتھ ملے کہ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اسے ملنے اس کے ساتھ صحبت کرنے پر راضی نہیں ہیں یہ طریق کار مرجعیت سے پہلے تھا مرجعیت کو قبول کرنے کے بعد پھر یہ طریق کار ممکن نہ رہا اب انہیں ہر شخص کی دلجوئی کرنا تھی کوئی ملنے بھی آتا تو اس سے ملنا اس بات کی دلیل نہ رہا تھا کہ وہ ان کے لیے قابل قبول شخصیت ہیں اب ان کا برتاو ہر خاص و عام کے ساتھ یکساں تھا۔