ان کادرس خارج کچھ ایسے طریقے سے تھا کہ اس سے طلبا پروری اوراجتہادپروری کارنگ جھلکتاتھاعمومااستاد ایک مسئلہ کو حل کرنے کے لیے طلبہ کے ساتھ قدم بہ قدم چلتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ استاد شاگردوں کے ساتھ ساتھ غور وفکر کر کے مسئلہ کے حل کی طرف بڑھ رہا ہے آیت اللہ بہجت کا بھی یہی طریقہ تھا اس طریقے سے شاگردوں کو یہ احساس نہیں تھا کہ یہ مسئلہ پہلے سے حل شدہ ہے اور استاد صرف اس کا تکرار کر کے شاگردوں کو اس کی خبر دے رہا ہے بلکہ آیت اللہ بہجت اپنے دروس خاص کر ریاضی میں جب کسی مسئلہ کو لیتے تو اس طرح شاگردوں کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے کہ استاد کے ساتھ شاگردوں کو بھی غور و فکر کی عادت پیدا ہو جاتی تھی .
اس لیے وہ جب کبھی دوران درس رک کر خود غور وفکر میں مصروف ہوتے یا کسی مطلب کا بار بار تکرار کرتے تو شاگردوں کو بھی غور و فکر کا موقع مل جاتا طلبہ پروری کے اسی انداز کے ساتھ جب مسئلہ کے حل تک پہنچتے تو طلبہ نہ صرف اسے سمجھ چکے ہوتے بلکہ ان کے اندر خود اعتمادی کی صفت بھی پیدا ہو جاتی .