ان دنوں ان کے اجتہاد کی شہرت توتھی مگروہ اتنے واضح انداز میں مشہورنہیں تھے مرجعیت سے پہلے توحوزہ میں بہت سے افرادان کے علمی مقام ومرتبے سے واقف نہیں تھے اوراعلان مرجعیت کے بعدان کے سیروسلوک کے مدارج نے اتنی چکاچونک پیداکررکھی تھی کہ ان کاپایہ علمی اس چمک ودمک میں دہندلاکررھ گیااگرہم یہ کہیں کہ آیة اللہ بہجت ہمیشہ علمی غربت میں رہے اوراسی عالم غربت میں چلے گئے تو ہمارایہ کہنامبالغہ نہیں ہوگاالبتہ ان کے آخری ایام حیات میں ہم نے لوگوں کوبڑی تعدادمیں ان کے اردگردجمع ہوتے ہوئے دیکھااوروہ زیادہ تراوقات عرض گزاروں کے درمیان گھرے رہے ممکن ہے یوں کہاجائے .
ان کے درس خارج کے بارے میں ایک بات قابل ذکرہے کہ اگرکوئی شخص پہلے سے عنوان درس کامطالعہ کرکے آتا یایہ کہ اسے عنوان کےبارے میں علم ہوتا اوروہ اس کیلئے تیارہوکرآتاتووہ اس درس کوخوب سمجھ سکتاتھااورپورافائدہ حاصل کرتااوراگرکوئی پہلے سے مطالعہ کرکےنہ آتااورخالی ذہن درس میں شریک ہوتاتواس کے لئے سمجھنابڑامشکل تھا وہ درک نہ کرپاتاکہ بحث کارخ کیا ہے دوسری اہم بات یہ تھی کہ وہ درس کے دوران نہ کسی عالم بزرگوارکانام لیتے تھے اورنہ کسی کوبحث میں مشخص کرتے تھے زیادہ سے زیادہ یہی فرماتے ہوسکتاہے کسی نےیہ کہاہواسی طرح اگرکوئی دوران درس اعتراض کرتاتوجواب میں یہ کبھی نہ فرماتے کہ میں اس کے جواب میں یہ کہتاہوں بلکہ وہ عمومی اندازرہتا کہ ممکن ہے اس کے جواب میں کوئی یوں کہے چاہے وہ خودکہہ رہے ہوں اور درس اصول کے جزوہ میں بھی یہی حالت تھی کہ پہلےسے چھپاہواجزوہ تقسیم کیاجاتااس میں بھی یہی کچھ ہوتاکہ کسی کو مشخص نہ فرماتے بلکہ یہی کہتے ممکن ہے کسی نے یہ کہاہویاممکن ہے کوئی یوں کہے اورانکایہ اندازشایدزیادہ پسندیدہ نہیں تھا .