پہلی مرتبہ جب میں آیت اللہ بہجت کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا مجھے چھوڑو اور ان علماء کے پاس چلے جائو جو خود بھی روشن کردار ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی روشنی سے منور کرتے ہیں میں تو آخر الزمان کے ان علمائے سوء میں سے ہوں جن سے بچنے کی ہدایت کی گئی میں نہیں سمجھ سکا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں وہ اپنے بارے میں کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں یا میری طرف اشارہ ہے۔
میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ وہ اپنے بارے میں انا عبد ذلیل ،مستجیر ،خائف کا مصداق تھے اپنے بارے میں یہ مفہوم آئمہ طاہرین سے بھی وارد ہے ظلمت نفسی وغیرہ جیسے الفاظ اور اسی قسم کا مفہوم حضرت ابو عبداللہ کی دعاوں میں بھی پایا جاتا ہے آقا رنجبر کہتے ہیں خدا کے خاص بندوں کو اس طرح کا ہونا چاہیے کہ کسی فضیلت کو اپنی طرف منسوب نہ کریں۔
آقا بہجت کی رحلت کے چند ماہ بعد جب میں آقا جوادی آملی کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے فرمایا بہت کم ایسے لوگ ہیں کہ نوے سے زیادہ عمر پانے کے باوجود وہ کسی امتحان میں نہ فیل ہوئے اور نہ تجدید بلکہ ہمیشہ ہر امتحان میں قبول ہوئے۔