سن٧١ شمسی سے ان کی رحلت سے تین چاردن پہلے تک میں مسلسل ا ن کی خدمت میں حاضر ہوتارہا کیونکہ میں ان کے درس میں شرکت کیاکرتا تھااس طرح میری ان کے ساتھ روزانہ ملاقات ہوجاتی تھی اکثراوقات میری ملاقات ان کے ساتھ صبح دم حرم مقدس سے گھرکی طرف جاتےہوئے ہوتی تھی.
سب سے پہلہ اہم واقعہ جومجھے یادہے اس کاتعلق سن ٦٢یا٦٣ شمسی سے ہے ایک باران کے گھرکی طرف جاتے ہوئے گلی میں مجھے خیال آیاکہ مجھے ایک درس آیة اللہ بہجت سے ان کے گھرمیں علیحدگی سے پڑہناچاہئے اس وقت میں رسائل ومکاسب شیخ انصاری پڑھ رہاتھامیں نے ان کے دولت خانے پر پہنچ کران کادروازہ کھٹ کھٹایاوہ باہرتشریف لائے اورفرمایاکیامجھ سے کوئی کام ہے میں نے کہامیں چندمنٹ آپ کاوقت لیناچاہتاہوں فرمایاہاں مگرسات یاآٹھ منٹ وقت دونگا اس سے زیادہ نہیں .
ا نہوں نے مجھے اندر لا کر بٹھایا اور پوچھنے لگے آپ کہاں کے ہیں اورکیاپڑہتے ہیں تواس وقت میں نے انہیں تفصیل سے بتایااورپھرایک معنوی اخلاقی سوال کیاکہ ہم طالب علم جواپناوطن اورگھربارچھوڑکرحوزے میں پڑہنے کے لئے آتے ہیں ہمیں کیاطریقہ اختیارکرناچاہئے کہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوکرعلمی اوراخلاقی طورپرترقی یافتہ ہوجائیں اورخدمت اسلام بجالائیں .
توانہوں نے فرمایاکہ اس سلسلہ میں سب سے پہلی اوراہم بات گناہوں کاترک کرناہے اورترک گناہ سے مرادتمام محرمات کوترک کردیناہے واجبات کواداکرناضروری ہے اوران کاترک کرناحرام ہے جس طرح کہ محرمات کاترک کرناواجب ہے اگرکوئی شخص اس اصول کاپابندہوجائے تومستحبات کی ادائیگی اورمکروہات کاترک خودبخودہوجاتاہے اس واقعہ میں اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے مجھے صرف سات یاآٹھ منٹ دینے کااندیہ فرمایا یعنی وہ جانتے تھے کہ اسے مجھ سے سات یاآٹھ منٹ استفادہ کرناہی کافی ہے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں.
گویابابصیرت شخصیات کے لئے وقت کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور وہ سوچ سمجھ کراسکاتعین کرتے ہیں فرمایاکرتے تھے کہ کسی کے ساتھ ضرورت سے زیادہ گفتگواورکلام کرنا ہمارے لئے مناسب نہیں ہے .
ایک بارانہوں نے مزاحیہ اندازمیں مجھے ایک اخلاقی نکتے کی تعلیم دی فرمایاکہ شادی کیوں نہیں کرلیتے ایک ہم بحث تلاش کرلو میں نے عرض کی کہ میں فی الحال درس پڑہناچاہتاہوں فرمایاکیاشیخ انصاری درس نہیں پڑہتے تھے جبکہ وہ شادی شدہ بھی تھے .