مرکز

در حال بارگیری...

جس کی پہچان نماز ہے

وہ نوے سال کی عمر میں بھی تینوں نمازیں مسجد فاطمیہ میں با جماعت پڑھتے تھے آخر عمر میں صرف تین چار سال ضعف پیری  کے سبب صبح اورمغربین کی نماز وں میں کبھی کبھی مسجد میں نہیں آتے تھے۔

پیر مرد سفید ریش کوتاہ قد دلنشین اورمہربان چہرہ قبا  کے اوپر کمر  کے ساتھ ایک شال باندھے ہوئے جلوہ گر ہوتے تھے۔ 

وہ روزانہ گھر سے مسجد تک پیدل نماز پڑھانے  کے لئے آتے تھے  اس چھوٹے سے فاصلے میں دوست قدم بہ قدم ان  کے ہمراہ ہو تے اورکبھی ان سے سوال بھی کر لیتے تھے جس کا وہ فورا جواب دیتے تھے ہماری کوشش ہو تی تھی کہ ہم مسلسل ان کا چہرہ تکتے رہیں  اور ان  کے لئے کسی زحمت کا باعث نہیں بنتے تھے عمر  کے آخری سالوں میں رش  کے سبب ان  کے لئے گاڑی مہیا کی گئی جس پرسوار ہوکر مسجدتشریف لاتے تھے نوجوان ان کی نماز میں بڑے شوق سے شریک ہوتے تھے  اور وہ نماز ہی  کے ذریعے ان کی تربیت فرماتے تھے نماز ان کی زندگی کا محورتھی وہ خود فرماتے تھے کہ میں اپنے استاد شیخ احمدسعیدفومنی کی نماز میں شریک ہوتا تھا اورعجیب مسرت انگیز حالات کا مشاہدہ کر  کے لطف اٹھاتا تھا  ایسی شخصیت کہ جس کی زندگی کا  آغاز نماز سے ہو اس کا انجام خدا جانے کتنا اعلی و ارفع ہو گا۔ 

وہ فومن شہر میں پیدا ہوئے والد نے ان کا نام محمدتقی رکھا اورنام کی توجیہ ان  کے والدمحمودکربلائی نے یہ بیان کی کہ نوجوانی میں،میں ایک خطرناک بیماری کا شکار ہوکر زندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلا تھا کہ عالم رویا میں،میں نے کسی کو کہتے ہوئے سنا اسے چھوڑ دو یہ محمدتقی  کے والد ہیں  ۱۶  مہینے  کے تھے کہ والدہ کا انتقال ہو گیا آپ کی  بڑی بہن نے تربیت  کے لئے اپنی مہربان آغوش میں لے لیا ان  کے پہلے استاد اپنے والد محمودکربلائی تھے جو مرثیہ گو تھے۔ 

منقبت اہلبیت(ع)میں اشعار لکھا کرتے تھے انھیں کی تربیت میں محمدتقی نے بھی مرثیہ گوئی سیکھی  اور اپنا دل محبت اہلبیت(ع)کی نظر کر دیا  مکتب میں پہنچے ملا کو کبی نے انھیں قرآن کی تعلیم دی پھر حوزہ علمیہ میں داخل ہوکر ادبیات عرب  اور فارسی ادبیات جیسے بوستان،گلستان،کلیلہ  اور دمنہ  پر استاد سعیدی سے عبورحاصل کیا پتہ چلتاہے کہ ان کی علمی کوشش نماز کوسمجھنے کے لئےتھی استاد کی پاکیزگی و طہارت اورکیفیت حضورنماز نے شاگرد  کے دل میں ایک طوفان برپا کر دیا  ۷ سال حوزہ علمیہ فومن میں رہے  اور ان کا شمار اعلی سطح  کے شاگردوں میں رہا۔ 

ہر جمعہ مسجد میں مجلس عزا حضرت امام  حسین(ع) کا  انعقاد فرماتے تھے اس میں خود شریک ہوتے تھے  اور خواہش کرتے تھے کہ اس ہفتہ وار پروگرام میں ناغہ نہ ہونے پائے۔

سن 1929ء میں جبکہ ابھی ١٤ سال  کے بھی نہیں ہوئے تھے وطن سے ہجرت کا ارادہ کیا ہجرت بھی حوزہ علمیہ کربلا و نجف  کے قصد سے تھی والد مہربان نے اپنے ایک مالدار دوست  کے ساتھ انھیں اپنے بھائی  کے پاس کربلا بھیج دیا وہاں پہنچ کر ایک سال اپنے چچا  کے مکان پرمقیم رہے سال  کے بعدکسب علم کی غرض سے مدرسہ میں داخل ہو گئے۔ 

خودفرماتے ہیں کہ میں ایک سال سے زیادہ عرصہ کربلامعلی میں رہا وہیں مکلف ہوا اورمدرسہ بادکوبہ ای میں چلا گیا میرے والدوہاں تشریف لائے تو شیخ جعفر حائری نے والد کی موجودگی میں میری دستاربندی کی چارسال کا عرصہ کربلا میں گزارنے  کے بعد وہ عازم نجف اشرف ہوئے سطحیات کا اہم حصہ کربلا میں پڑھ چکے تھے  اور اس کی تکمیل نجف اشرف میں آیۃ اللہ شیخ مرتضی طالقانی،سید ہادی میلانی،سید ابو القاسم خوئی اورشیخ علی محمد بروجردی اورسید محمد شاہرودی سے کی۔ 

سطحیات سے فارغ ہونے  کے بعد اصول کا درس خارج آقا ضیاءعراقی اورمرزا نائینی سے حاصل کیا ا ور فقہ کا درس خارج شیخ محمد کاظم شیرازی سے پڑھا  آیت اللہ غروی کمپانی کا درس ایک ایسا مقام تھا کہ جہاں پہنچ کر انھوں نے وہ سب کچھ حاصل کر لیا جو چاہتے تھے وہ آیت اللہ سید ابو الحسن اصفہانی  کے درس سے بھی بہرہ مند ہوئے۔ 

انھوں نے فلسفہ آیت اللہ سیدحسین بادکوبہ ای سے پڑھا  آیت اللہ بہجت نجف اشرف میں تدریس بھی کرتے رہے اورحوزہ  کےسطح عالی  کے دروس اورمنظومہ کوبھی پڑھاتے تھے انھیں ان  کے استاد آیت اللہ قاضی نے فاضل گیلانی کا لقب عطا کیا تھا اسی استاد نے ان  کے اخلاق اورسیر و سلوک کو کمال تک پہنچایا ان  کے والدمحمودکربلائی کو فومن میں خط لکھا گیا کہ آپ  کے بیٹے بہجت تصوف کی طرف مائل ہو گئے  آپ بہت جلد سنیں گے کہ انھوں نے پڑھنے پڑھانے کو خیر باد کہہ دیا ہے والد نے انھیں خط لکھ کر مستحبات پرعمل کرنے سے روک دیا وہ اپنے والد کا خط اپنے استاد آقا قاضی  کے پاس لائے تو استاد نے انھیں خط  کے ساتھ ان  کے مرجع  کے پاس بھیج دیا جنھوں نے خط پڑھنے  کے بعد فرمایا کہ تم اپنے والد کی ہدایت  پر پورا پورا عمل کرو  اور وہ اس  پر پوری طرح عمل پیرا رہے۔ 

ابھی ان کی عمر ٣٠ سال نہیں ہوئی تھی کہ وہ عراق سے ایران پلٹ آئے سن 1955ء میں اپنے وطن فومن پہنچ گئے  اور اپنی  بڑی بہن کی خواہش  کے مطابق جو ان  کے لئے ماں کا مقام رکھتی تھیں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے چند مہینے فومن میں رہنے  کے بعد پھر عازم نجف اشرف ہوئے راستے میں حوزہ علمیہ قم سے آشنائی حاصل کرنے  کے لئے کچھ دن وہاں مقیم رہے ابھی قم میں تھے کہ انھیں اپنے والدگرامی محمود کربلائی کی رحلت کی خبر ملی بیٹا ابھی باپ کی سوگواری میں تھا کہ انھیں دنوں نجف اشرف سے آقا سید ابو الحسن اصفہانی کی رحلت کی خبر ملی  اور کچھ ہی دنوں بعد آیت اللہ قاضی  کے انتقال فرما جانے کی اطلاع ملی یہ سوانح ارتحال ان کی قم مقدس میں مستقل اقامت اختیارکرنے کا سبب بن گئے قم مقدس میں ان کی اہم مصروفیات تدریس وتحقیق سے وابستہ تھی۔ 

سن 1993ء میں بحیثیت مرجع تقلید ان کا تعارف ہوا۔   

اس دوران وہ آیت اللہ حجت کوہ کمرہ ا ی  اور آیت اللہ بروجردی  کے درس میں بھی شریک ہوتے رہےسن 1993ء میں بحیثیت مرجع تقلید ان کا تعارف ہوا۔   

ابتداء وہ اپنا رسالہ شائع کرنے  اور اپنی رای کا اظہارکرنے سے مانع رہے  اور فرماتے رہے کہ دوسرے مراجع کا انتخاب ہونے دو اگر پھر ضرورت محسوس کی گئی اورکسی نے اصرار کیا تو یہ سب کچھ ہو جائے گا ان کا رسالہ سات مرتبہ ان  کے نام  کے بغیر شائع ہوتا رہا وہ اپنا نام ظاہرکرنے  پر راضی نہیں تھے جب شدید اصرار کیا گیا تو انھوں نے رسالہ  پر اپنا نام ظاہرکرنے کی اجازت دی  اور بغیر کسی القاب  کے اپنے دستخطوں کی صورت میں صرف:العبدمحمدتقی بہجت لکھنے کی ہدایت کی۔ 

سن 1996 ءسے آخر عمر تک ان کی نماز  اور درس مسجد فاطمیہ میں رہا صبح فقہ کا درس  خارج دیتے تھے  اور عصر  کے وقت اصول کا درس خارج ہوتا تھا ان  کے شاگرد ان  کے ہاں علاوہ درس  کے دوسرے لطیف نکات حاصل کرنے کی غرض سے شامل ہوتے تھے وہ اپنے کو مخفی رکھنے والے تھے اپنے اسرار کو محفوظ رکھتے تھے  اور خاموش طبع تھےکبھی کبھی حالت درس میں سکوت اختیار کر لیتے تھے اورپھر سکوت توڑ کر وہیں سے سلسلہ کلام جوڑ تے تھے جو سکوت سے پہلے تھا اوربعض اوقات ایسا  پر لطف نکتہ بیان کرتے تھے کہ جنھیں سننے والے بہت غنیمت خیال کرتے تھے۔

سن 2009 ء کے ماہ مئی میں ان  کے انتظار وصال  کے لمحات ختم ہو گئے  اورعمر بھر جس محبوب کی دوری  کے داغ  کے سبب نماز میں نوحہ کناں رہے اس  کے ساتھ واصل بحق ہو گئے۔

ہر جمعہ مسجد میں مجلس عزا حضرت امام  حسین(ع) کا  انعقاد فرماتے تھے اس میں خود شریک ہوتے تھے  اور خواہش کرتے تھے کہ اس ہفتہ وار پروگرام میں ناغہ نہ ہونے پائے گرمیوں  کے موسم میں مشہد مقدس تشریف لے جاتے تھے وہاں بھی مجلس عزا  کے اس ہفتگی پروگرام میں فرق نہ آتا تھا۔ 

سن 2009 ء کے ماہ مئی میں ان  کے انتظار وصال  کے لمحات ختم ہو گئے  اورعمر بھر جس محبوب کی دوری  کے داغ  کے سبب نماز میں نوحہ کناں رہے اس  کے ساتھ واصل بحق ہو گئے خود چلے گئے   اور اپنے پیچھے ایک دنیا کو سوگوار چھوڑ گئے ان کی رحلت نے ثابت کر دیا کہ اگر کسی کا دنیا میں رہنا  اور جانا خدا  کے لئے ہوتو وہ اس دنیا میں کس درجہ اثرات چھوڑ کر رخصت ہوتا ہے۔ 

تازہ ترین مضامین

پروفائلز