مرکز

در حال بارگیری...

سب سے بڑی کرامت

ان سالوں میں ،میں نے جو محسوس کیا وہ یہ تھا کہ آقا بہجت عجیب و غریب اور پر اسرار شخصیت کے مالک تھے با کرامت ہونے کے باوجود اگر وہ کسی پر اپنی کوئی کرامت ظاہر نہ کرنا چاہتے تو وہ اس پر قدرت رکھتے تھے اور استاد تھے ایک شخص جو صاحب مراقبہ و عرفان سمجھے جاتے تھے اور آیت بہجت کے ہاں بڑی آمد و رفت رکھتے تھے   ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی ان کی کوئی کرامت دیکھی ہے انہوں نے کہا نہیں پس وہ جسے نہ چاہتے اسے کوئی کرامت نہ دکھاتے اس لئے ان کے بارے میں یہ شک ہی رہا کہ وہ صاحب کرامت بھی ہیں یا نہیں
وہ عام شخص کی طرح ملتے جلتے اور زندگی گزارتے تھے جب کوئی ان سے زیادہ قریب ہوتا تو وہ محسوس کرتا کہ ان میں کوئی خاص بات ہے ان کی سب سے بڑی کرامت تویہی تھی کہ وہ ہم جیسے لوگوں کو برداشت کیے رہے۔

اس زمانے اور اس زمانے میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ لوگ عرفانیات سے بے خبر تھے وہ نہیں جانتے کہ کچھ عارف شخصیات بھی ہمارے درمیان موجود ہیں آیت اللہ بہجت اور آیت اللہ بہاءالدینی کو لوگ جانتے تو تھے مگر بہت کم جیسے جیسے ان کا تعارف ہوتا گیا لوگ ان سے وابستہ ہوتے گئے آیت اللہ بہجت کسی صورت راضی نہیں تھے کہ ان کے بارے میں کوئی کتاب یا کوئی بھی چیز چھاپی جائے۔

کسی ایک دوست نے بتایا کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ میرے بارے میں کوئی چیز یا کتاب میری زندگی میں نہیں چھپ سکتی میرے جنازے کے بعد ہی ممکن ہو گی انہوں نے نہ کبھی اپنی کوئی خصوصیت نہ کبھی کوئی کرامت کسی کے سامنے بیان کی اگر اپنے بارے میں اس قسم کی بات ذکر بھی کرتے تو فرماتے کہ یہ بات ایک شخص کے بارے   میں ہے یا کسی دوسرے مخفی طریقے سے اسے ظاہر کرتے تھے ان کی زبان سے اپنے بارے میں کوئی تعریف اور تکبر کی بات نہیں سنی گئی وہ اصلا اس وادی میں تھے ہی نہیں۔

جب سب سے پہلے ان کی کتاب بسوئے محبوب شائع کی جانے لگی جو ان کی ہدایات و ارشادات پر مشتمل تھی اس کا کچھ کام میں نے بھی انجام دیا تھا اس وقت ہمیں بڑی پریشانی یہی تھی کہ آیا آقا صاحب اس کتاب کی اشاعت پر راضی بھی ہونگے یا نہیں کوئی شخص یہ جرات نہیں رکھتا تھا کہ ان سے اس بارے میں دریافت کرے میں متواتر اس کوشش رہا کہ کسی ذریعے سے اجازت طلب کروں یا یہ ہو کہ وہ دوران درس اس قسم کی اجازت کا اشارہ کر دیں مگر ممکن نہ ہوا لفظا جب بھی پوچھا جاتا تھا وہ بڑی شدت سے انکار کر دیتے تھے۔

تازہ ترین مضامین

پروفائلز