مرکز

در حال بارگیری...

وہ نہیں کہتے تھے یہ میرا فتویٰ ہے

بعض اوقات حضرت آیت اللہ بہجت سوال کا فورا جواب نہیں دیتے تھے اور خاموشی اختیار کر لیتے تھے اس کا سبب ایک تو یہ تھا کہ وہ عرفانی سیر میں اس وقت مشغول ہوتے تھے اور دوسرا سبب یہ کہ وہ فتویٰ دینے میں بڑے محتاط تھے ایک بار ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک شخص کچھ مسائل فقہی لے کر ایک عالم دین کے پاس آیا اور جواب طلب کیا کئی دن تک وہ عالم دین ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ 

تنگ آکر وہ شخص ایک دوسرے عالم دین کی خدمت میں گیا اور وہی مسائل پیش کرکے جواب طلب ہوا اتفاقا وہ عالم دین سواری پر سوار ہو رہے تھے انھوں نے اسی حالت میں ان سوالات کے جواب لکھے اور ان کے ہاتھ میں دے د یے وہ شخص کہ جو پہلے عالم دین کے رویے سے کبیدہ خاطر ہو چکا تھا اسی وقت ان کی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں عالم دین نے سواری پرسوار ہوتے ہوتے میرے سوالات کے جواب لکھ دئے ہیں اور آپ مجھے اتنے دن تک ٹالتے رہے ہیں۔ 

 عالم دین نے وہ جوابات پڑھے تو اپنے خادم سے کہا کہ میرے کمرے سے فلاں لکھا ہوا کاغذ لے آؤ وہ کاغذ سامنے آیا تو اس پربھی انھیں سوالات کے جوابات لکھے ہوئے تھے دونوں علماء کے لکھے ہوئے جوابات ٹھیک  اور ایک جیسے تھے سائل شخص نے کہا کہ جب آپ سوالات کے جواب لکھ چکے تھے تو آپ نے میرے حوالے کیوں نہیں کئے عالم دین نے کہا کہ میں نے جوابات پہلے دن ہی لکھ کر رکھ دئے تھے اور پھر اس سوچ میں رہا کہ شاید کوئی نئی دلیل مل جائے آج جب آپ دوسرے عالم دین سے لکھوا کر لائے ہیں اور ان کے جوابات بھی وہی ہیں جو میرے تھے تو میں مطمئن ہو گیا ہوں اور تمہارے حوالے کر دئے ہیں۔ 

با الفاظ دیگر ان کا ٹال مٹول کرنا اسے پریشان کرنے کے لئے نہیں تھا صرف مزید سوچ و بیچار اورتحقیق کے سبب تھا آقا روحی کہتے ہیں کہ آیت اللہ بہجت کا شمار بھی پہلے عالم دین جیسا تھا جو فتویٰ لکھنے کے بعد بھی مزید سوچ و بیچار سے کام لیتے تھے اور فورا جواب نہیں دیتے تھے۔  

تازہ ترین مضامین

پروفائلز